مارکس وادی دنیا کو کیسے سمجھتے ہیں:ہم مادیت پسند کیوں ہیں؟

|تحریر: ایسائیا جونسن، ترجمہ: یونس لھر|

فلسفے کا لفظ سنتے ہی اکثر لوگوں کے ذہن میں فوری طور یونیورسٹی سمینارحال میں پیچیدہ بحثوں میں مصروف دانشوروں کا تصور ابھرتا ہے۔ایسے لگتا ہے کہ ہے یہ کوئی مبہم موضوع ہے جو فقط چند انتہائی ذہین لوگوں کے لیئے مختص ہے،اس سے بڑھ کر یہ کہ روزمرہ زندگی کے معاملات سے لاتعلق اور علحیدہ کوئی موضوع ہے۔ اکثر لوگ بنیادی ضروریات کی تکمیل اور اپنے خاندانوں کا گزر بسر پورا کرنے میں مصروف ہوتے ہیں یا پھر روزانہ کے اجیرن کام سے اگر تھوڑا وقت ملے بھی توا سے سیر و تفریح کیلئے صرف کرکے تسکین حاصل کرتے ہیں لہذا ان کے پاس ایسی غیر اہم باتوں کیلئے وقت نہیں ہوتا۔

 

چنانچہ یونیورسٹیوں میں فلسفے کے شعبوں میں جو گیان دیا جاتا ہے اس کا حقیقی دنیا سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا(یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر بحث کیلئے الگ وقت درکار ہے)۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں فلسفے کو پیچیدہ، غیر اہم اور ناقابل فہم بنا کر پیش کیا جاتاہے۔

فلسفہ در حقیقیت، ہمارے اردگر موجود دنیا کی تشریح کرنے اوراس کو سمجھنے کا نام ہے۔ یہ خیالات، مشاہدات اور قیاص آرائیوں کا مجموعہ ہے جن کی بدولت دنیاکا ادراک ممکن ہوپاتا ہے۔

ہر شخص کسی نہ کسی فلسفے پر عمل پیرا ہوتا ہے چاہے اسے اس کا ادراک ہو یا نہ ہو۔ اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے،کیونکہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کوئی فلسفہ نہیں ہے، دراصل ان کا بھی ایک فلسفہ ہوتا ہے جو انہوں نے شعوری طورپہ اپنے لیے منتخب نہیں کیا ہوتا۔بلکہ وہ اسی مروجہ غالب فلسفے پر عمل پیرا ہوتے ہیں جو انہوں نے نظامِ تعلیم، میڈیا، ثقافت، اور سماجی زندگی کے سے حاصل کیا ہوتاہے، جو درحقیقت حکمران طبقے کا فلسفہ ہوتاہے۔جس کے ذریعے حکمران طبقہ، زندگی کے مختلف شعبوں پراپنا کنٹرول برقرار رکھتے ہوئے دنیا کے بارے میں ایسا تصور قائم کرتا جو موجودہ دنیا کے درست ہونے کا جواز پیش کرتاہے۔

لہٰذا مارکس وادیوں کا مقدمہ ہے کہ محنت کش طبقے کو اپنے فلسفے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دنیا کو سمجھ سکیں اور بدل سکیں، اور یہ فلسفہ جدلیاتی مادیت ہے۔ لیکن یہ کوئی من گھڑت کہانی یا کوئی خواہش نہیں جو صرف انقلاب اور کمیونزم کو جواز پیش کرنے کیلئے گھڑی گئی ہے۔ اگر فلسفہ دنیا کو سمجھنے اور ادراک کرنے کا ایک طریقہ ہے، توفلسفے کا دنیا سے گہرا تعلق ہونا چاہیے، بصورت دیگر یہ مددگار ثابت ہونا تو دور بلکہ یہ رکاوٹ بن جاتا ہے۔ ٰلہٰذا مارکس وادیوں کی یہ دلیل ہے کہ جدلیات کے ساتھ مادیت پرستی بھی ہمارے فلسفے کا انتہائی اہم جز وہے۔

مادیت پرستی کیا ہے؟

فلسفے کے میدان میں سب سے بڑا تضاد خیال اور مادے کے مابین تعلقات کے سوال پر ہے۔ ہوبز، ڈیڈروٹ اور مارکس جیسے مادیت پسند یہ دلیل دیتے ہیں کہ مادہ (یعنی کہ مادی دنیا) بنیادی حیثیت رکھتا ہے: ہمارے آس پاس کی دنیا وجود رکھتی ہے، اور اس کے متعلق جانا جاسکتا ہے۔ مزید یہ کہ ذہن اور مادے کے مابین کوئی حقیقی فرق نہیں ہے،بلکہ ذہن اور شعور مادے کی خاص ترکیب کی پیداوار ہیں۔ عینیت پسند مثلاً ہیگل اور ڈیکارٹ کے مطابق ہمارے خیالات اور احساسات معروض سے الگ اور اس سے مختلف ہیں۔ ان کے مطابق موضوعی دنیا کے مقابلے میں ہمارے خیالات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ کہ دنیا ہمارے خیالات اور تصورات سے بالاتر کوئی آزاد وجود نہیں رکھتی۔

عملی طور پر اس کا کیا مطلب ہے؟ اگر کسی جنگل میں کوئی درخت گرجائے تو کیا کوئی آواز پیدا ہوگی جبکہ سننے والا کوئی نہ ہو؟ اس پر مادیت پسند کہتے ہیں، ہاں! آواز پیدا ہوگی۔ انتہائی خالص اور شدید خیال پرست یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس بات کا کوئی یقین نہیں کہ درخت ہم سے الگ آزادنہ طور پر وجود رکھتاہے، یہ درخت تب ہی وجود میں آتا ہے جب کوئی اس کے ہونے کا تصور کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں خیال پسندوں کے یہاں دنیا خود ہمارے دماغوں کی پیداوار ہے اس کا کوئی الگ اور آزادنہ وجود نہیں۔

فلسفے کے مادہ پرست اور خیال پرست دونوں فلسفیانہ نقظہ نظر کے سامنے یہ سوال اہم ہے ہم کس چیز کو جان سکتے ہیں اور کس کو نہیں۔ مادیت پرستوں کے مطابق چیزیں ہمار ے مشا ہدے کی صلاحیت سے آزادانہ وجود کی حامل اور ہم مشاہدات کے ذریعے ان کو سمجھنے کا آغاز کر سکتے ہیں۔ البتہ کسی چیز کی سمجھ نامکمل ہوسکتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ بلکہ مزید مشاہدات کے ذریعے اس شے کی بابت سمجھ کو ترقی ملتی ہے، اور اس چیز کی نوعیت کو زیادہ سے زیادہ سمجھنا ممکن ہوتاجاتا ہے۔

اس کے برعکس عینیت پرست چیزوں کی معروضی خصوصیات کو جاننے کے امکان کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عنیت پرستوں کے نزدیک چیزوں کے بارے میں ہمارے تصورسے باہران چیزوں کا وجود نہیں ہوتا، یعنی ہم سے آزادانہ طورپر چیزوں کا کوئی معروضی وجود ہی نہیں ہوتا۔

اس لیے مادیت پسندی سائنس، علم، اور ترقی کا فلسفہ ہے، جبکہ خیال پرستی صرف اور صرف ایک موضوعیت پرستی (یعنی علم کو محض موضوعی چیز سمجھنا) اور ریلیٹو ازم (relativism) کا فلسفہ بن چکا ہے۔

فلسفہ کیوں ضروری ہے؟

اگر آپ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کے دنیا آپ کے خیالات سے آزاد وجود نہیں رکھتی تو آپ یہ پڑھ کر سوچ رہے ہوں گے کہ عینیت پسندی کو ماننا اانتہائی مضحکہ خیز ہے۔مگر حیرت انگیز بات یہ ہے جدید دنیا کے مختلف شعبوں میں خیال پرستی کس قدر رائج ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر عینیت پرستی کو انتہائی شرمناک انداز میں پیش کیا جاتا ہے، اور زیادہ تر حامی بھی اس بات سے سختی سے انکار کرتے ہیں کہ یہ واقعی عینیت پرستی ہے۔ان کے یہاں دلیل دی جاتی ہے کہ ”ٹھیک ہے، ہم انکار نہیں کررہے ہیں کہ درخت موجود ہے ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ درخت صرف اسی صورت میں درخت ہیں کیونکہ ہمارا وجود ہی درخت کو معنی بخشتا ہے“۔تاہم، یہ صرف عینیت پسندی کو آدھے راستے میں روکنے کے مترادف ہے۔یہاں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ خیال کے کردار کو بنیادی حیثیت دی جاسکے جس کے سبب یہ نتیجہ اخذ کرنا ناگزیر بن جاتا ہے کہ اگر خیال دنیا کی انفرادی خصوصیات پیدا کرتا ہے تو، دنیا ہمارے خیال کی تخلیق ہے۔

لہذا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کس فلسفیانہ نقظہ نظر کے تحت دنیا کی تشریح کی جاتی ہے۔ تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عینیت پرستی بُہت سے شعبوں میں انتہائی نقصان دہ اثرات مرتب کرنے کا باعث بنتی ہے۔ بالخصوص سماجی سائنس میں، خیال پرستی ایک مہلک فلسفہ ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم اسی پس منظر میں سماجی مسائل کی وجوہات اور نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس سلسلے میں بہت گھناؤنے مکاتب فکر پوسٹ ماڈرنزم اور پوسٹ سٹرکچرلزم ہیں جو آج کل یونیورسٹیوں کے سماجی سائنسز کے شعبوں میں عام ہیں۔

ظلم و جبر یا استحصال کے سوال پر، یہ مکاتب فکر دلیل دیتے ہیں کہ ظلم بالکل بے بنیاد ہے اور محض غالب سماجی اور ثقافتی نظریات اور بیانیے(Narrative ) کا نتیجہ ہے۔نسل پرستانہ اور شہوی رجحانات رکھنے والے نوجوانوں کے لئے یہ خیالات کس قدر دلکش ہوسکتے ہیں۔لیکن جب ان مابعدجدیدخیالات کومزید پرکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ کتنے مسائل کو جنم دیتے ہیں۔

مابعد جدیدیت کے نقظہ نظر کے تحتجابرانہ خیالات کیوں وجود میں آتے ہیں (یا غالب آتے ہیں) اس کی حقیقت میں کبھی وضاحت نہیں کی جاسکتی بلکہ یہ محض ایک حادثہ ہے۔ اگر ان رویوں کی کئی مادی بنیادیں نہیں ہیں بلکہ یہ ثقافتی طور پر غلبہ پا چکے ہیں تو مادی دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کو بدل کر ہم ان رویوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔اگر ظلم اور تعصب محض خیالات کی پیداوار ہیں تو ہم صرف اتنا کرسکتے ہیں کہ پرانے نظریات کو چیلنج کرنے والے متبادل نظریات اور بیانیے تخلیق کرنے کی کوشش کریں۔مثال کے طور پر، جوڈتھ بٹلر نے دعوہ کیا کہ صنفی عدم مساوات کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے صنفی اصولوں کا مذاق اڑا کر حوصلہ شکنی کی جائے۔

اس لیے نیک نیت نوجوانوں کے پاس بڑے سماجی مسائل جو ان کی روزمرہ کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں کے حل کے لیے چند حل باقی رہ جاتے ہیں۔وہ خواہ مخواہ کی بحثوں کا سہا را لیتے ہوئے صنفی جبر کو چیلنج کرتے ہیں۔اسی طرح ”استحقاق کی جانچ پڑتال“ کے طریقے کار کو نسل پرستی کے خاتمہ کیلئے زیر استعمال لاتے ہے۔چیزوں کی موجودہ ترتیب کو چیلنج کرنے کیلئے مخصول الفاظ کوترک کرنے اور کچھ کو دوبارہ سیکھنے پر زور دیا جاتا ہے۔ مختصراً وہ خیالات کے بدلاؤ کے ذریعے ہی مادی دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں۔

جبکہ مارکس وادی،جو کہ مادیت پسندی ہیں،کے یہاں ظلم و جبر یا استحصال، بیانیہ یا زبان کی ردوبدل سے نہیں بلکہ حقیقی اور موجود سماجی تعلقات سے جنم لیتا ہے۔مثلا، سرمایہ داری کے ابتدائی عہد میں جب ایک طرف سرمایہ دار اپنے غالب فلسفے لبرل ازم کے سائے تلے آزادی اور مساوات کا نعرہ لگا رہے تھے ٹھیک اسی وقت امریکا میں سستے محنت کے حصول کیلئے وہاں نسل پرستی کو ابھارا گیا۔ یہی نسل پرستانہ نظریات ہی تھے جس سے محنت کشوں کی محنت کے استحصال کو جواز فراہم کرتے ہوئے تیز کیا گیا اور اسی طرح انھیں نسلی بنیادوں پر تقسیم کیا گیا۔ اسی طرح سیاہ فام محنت کشوں کو سفید فام کے ماتحت، اور غلام قرار دے کر انھیں آپس میں جڑنے نہیں دیا گیا۔مزید یہ کہ جب تک سرمایہ داری موجودہے تب تک یہ مظہر جاری رہے گا۔ محنت کش طبقے کو تقسیم کر کے ہی محنت کشوں کی کچھ پرتوں کا شدید استحصال کیا جاسکتا ہے اور ان کی آپسی جڑت کو روکا جاسکتا ہے۔

مارکسوادیوں کے نزدیک، نسل پرستی سمیت تمام سماجی مسائل کی وجوحات کو جانا جا سکتاہے۔لہذا، ہم خود کو اس حد تک محدود نہیں رکھتے کہ ہم ظلم جبر کے غالب ثقافتی بیانیوں کو چیلنج کریں بلکہ جبر کے ان تمام اقسام کو جڑسے اکھاڑپھینکنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ مثلاً نسل پرستی کے خاتمہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ مسئلے کی وجہ یعنی کے سرمایہ داری کو ختم کیا جائے۔ جب نسل پرستی کی مادی بنیاد کو ختم کر دیا جائے گا تو نسل پرستانہ خیالات خود ہی ختم ہو جائیں گے۔اسی طرح جب ہر ایک شہری کو روزگار میسر ہوگا اور آپ کو ضرورت سے زیادہ ملے گا تو آپ روزگار کی خاطر دنیا کی خاک چھاننے والے تارکین وطن کی وجہ سے کیوں پریشان ہونگے کہ وہ آپ کی نوکریاں چھین رہے ہیں؟

اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ تعصب پر مبنی یہ رویے راتوں رات اپنی موت مر جائیں گے،بلکہ وجوہات ختم ہو جانے کے بعد نسل پرستی مزید جڑ نہیں پکڑ سکے گی۔اس لیئے ہم مارکس وادی دلیل دیتے ہیں کہ خیالات کو تبدیل کرنے کیلئے دنیا کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.