فلم ری ویو: لینڈ اینڈ فریڈم

|از: لقمان رحمانی|

1995ء میں ریلیز ہونے والی یہ فلم برطانوی ڈائریکٹر کین لوچ (Ken Loach) نے بنائی ہے۔ اس ڈائریکٹر کی فلموں میں خصوصی بات یہ ہے کہ ان میں دیکھنے والے کو سماج میں ہونے والا ظلم و استحصال نمایاں نظر آتا ہے۔ کین لوچ، جو نظریاتی طور پر ٹراٹسکائیٹ (Troskyite) ہے، اپنی فلموں میں سماجی نابرابری، غربت اور بے گھری کو بہت جامع اور سبق آموز انداز میں پیش کرتے ہیں۔

یہ فلم سپین کے 1931-36ء کے انقلاب کے ایک حصے پر بنائی گئی ہے۔ یہ انقلاب بیسویں صدی کے انتہائی اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے جس میں سپین کے محنت کش طبقے نے ایک عظیم الشان تاریخ مرتب کی۔ لیکن قیادت کی غداریوں کے باعث یہ انقلاب کامیاب نہ ہو سکا اور فرانکو کی خونی آمریت سپین پر مسلط ہو گئی۔ لیکن اس کے باوجود اس دور کے انقلابی واقعات پوری دنیا میں انقلاب کی جدوجہد کرنے والے کارکنان کے لیے انتہائی اہم اسباق رکھتے ہیں جن سے آج بھی بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔

اس فلم کی بنیاد مشہور برطانوی مصنف جارج آرویل (George Orwell) کا سفر نامہ ہے۔ انگریزی میں اس کانام ”Homage to Catalonia“ ہے جبکہ اردو میں یہ ”سپین میں خانہ جنگی“ کے نام سے ترجمہ کر کے شائع کیا جا چکا ہے۔ کیٹالان، سپین کا علاقہ ہے جہاں آج بھی علیحدگی کی عوامی تحریک بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ اس سفر نامے میں جارج آرویل نے سپین کے انقلاب میں اپنی شمولیت کی تفصیلات ادبی اندازمیں بیان کی ہیں۔ اسی کو بنیاد بناتے ہوئے کین لوچ نے ان واقعات کو ڈرامائی انداز میں اس فلم میں دکھایا ہے جس کے باعث یہ فلم خود ایک شاہکار بن گئی ہے۔ اس فلم میں ہسپانوی خانہ جنگی کی کہانی کو ایک برطانوی نوجوان کی نظروں سے دکھایا گیا ہے۔ ایک نوجوان جو ظلم کے خلاف لڑنے کے جذبے سے سرشار ہے اور اس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوتا ہے۔

فلم کا خلاصہ

برطانیہ کے شہر لیورپول (Liverpool) میں رہنے والا ایک بیروزگار نوجوان ڈیوڈ کار (David Carr) برطانوی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر ہے۔ یہ ہسپانوی خانہ جنگی کا زمانہ ہے۔ سپین میں انقلابی واقعات کے ایک طویل سلسلے کے بعد فروری 1936ء میں عام انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں بائیں بازو کی طرف رجحان رکھنے والی پارٹی پر مشتمل ایک حکومت بنی تھی۔ اس حکومت نے مختلف اصلاحات کیں اور بہت سے اداروں کو قومی تحویل میں لیا۔ اس کے چند مہینے بعد 18 جولائی کو حکومت کے خلاف جنرل فرانکو (Franco) کی قیادت میں ایک انتہائی دائیں بازو کی فوجی بغاوت کا آغاز ہوا۔ فاشسٹ نظریات رکھنے والا یہ جنرل بڑے بڑے سرمایہ داروں، جاگیر داروں اور آرمی افسران کا نمائندہ بن کر سامنے آیا جو محنت کشوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خوفزدہ تھے۔ فاشسٹوں کیخلاف مزاحمت کے لیے اس وقت دنیا بھر سے اور خاص کر پورے یورپ سے انقلابی نوجوان سپین آ رہے تھے۔ اسی دوران برطانیہ میں بھی کمیونسٹ پارٹی کا اجلاس ہوتا ہے جس میں وہ اپنے ممبران سے اس مزاحمت کا حصہ بننے کی درخواست کرتے ہیں جس میں ڈیوڈ بھی اپنا نام لکھوا لیتا ہے۔

بہت ہی مشکل حالات میں ڈیوڈ سپین پہنچتا ہے۔ وہاں پہنچ کر وہ ریل گاڑی کے ذریعے جنگ کی تربیت لینے روانہ ہو جاتا ہے۔ سفر کے دوران جب ٹی سی ٹکٹ دیکھنے آتا ہے تو ڈیوڈ کے پاس ٹکٹ نہیں ہوتا۔ مگر جب ٹی سی کو پتہ چلتا ہے کہ ڈیوڈ فاشسٹوں کے خلاف لڑنے آیا ہے تو وہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ریل کا نظام ٹریڈ یونین کے قبضے میں ہے اور تم اس میں بغیر ٹکٹ کے سفر کر سکتے ہو۔ بائیں بازو کی ایک ہسپانوی پارٹی P.O.U.M کی ملیشیا میں جنگی تربیت لینے کے بعد ڈیوڈ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ محاذ کی جانب چلتاہے جہاں ان کا فاشسٹوں سے سامنا ہوتا ہے۔ فلم میں اس پارٹی کے سپاہی فاشسٹ فوج کو پیچھے دھکیلتے ہوئے ان کے قبضے سے ایک گاؤں بھی چھڑا لیتے ہیں۔ اس مہم میں ان کے بھی کچھ ساتھی مارے جاتے ہیں جن کو مزدوروں کا عالمی ترانہ انٹرنیشنل گا کر دفنایا جاتا ہے اور انقلاب زندہ باد اور مرگ بر فاشزم کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔

اس کے بعد کا سین ڈائریکٹر کین لوچ کے مطابق فلم کا سب سے اہم سین ہے جس میں گاؤں کے لوگوں کا ایک اجلاس ہوتا ہے اور زمین کے مسئلے کو بہت تفصیل کے ساتھ زیر بحث لایا جاتا ہے۔ یہاں پر دو گروہ بن جاتے ہیں جن میں ایک کا خیال ہوتا کہ ہمیں فاشسٹوں کے خلاف لڑنے کے ساتھ ساتھ نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے محنت کشوں کے انقلاب کے لیے بھی راہ ہموار کرنی ہوگی اور زمین کو فوری طور پر اجتماعی ملکیت میں لینا ہو گا جبکہ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ پہلے ہمیں فاشسٹوں کو شکست دینے کے بارے میں سوچنا چاہیے اور یہ مسائل ثانوی نوعیت کے ہیں جن پر مکمل فتح کے بعد بحث ہونی چاہیے۔ گاؤں والوں میں سے ایک زمین کا مالک بھی ہوتا ہے جو کہتا ہے کہ میں اپنی زمین پر بہت محنت کرتا ہوں اور اس کو اجتماعی ملکیت میں نہیں دے سکتا۔ اس کے جواب میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم سب اسے اجتماعی ملکیت میں لیں تو اسے بہتر طریقے سے استعمال کرتے ہوئے زیادہ پیداوار کر پائیں گے اور ہم سب لوگوں کے ساتھ ساتھ محاذ پر لڑنے والے ہمارے سپاہیوں کو بھی وافر مقدار میں خوراک فراہم ہو گی۔ P.O.U.M کی ملیشیا (Malitia) میں لڑنے والا ایک امریکی انہیں مشورہ دیتا ہے کہ جنگ میں سرمایہ دار ممالک کی امداد حاصل کرنے کے لیے انہیں اپنا پروگرام اور نعرے تبدیل کرنے ہونگے۔ اس کے جواب میں جرمنی کا سپاہی جواب دیتا ہے کہ جرمنی میں ہماری بہت بڑی تحریک چلی تھی مگر اب ادھر ہٹلر قابض ہے کیونکہ وہاں کی سوشلسٹ اور کمیونسٹ قیادت نے ہمیں کہا تھا کہ اپنا انقلاب بعد میں لانا۔ کچھ اور سپاہی کہتے ہیں کہ اگر ہم اشتراکیت کی جانب بڑھیں تو جرمنی اور اٹلی کے محنت کش بھی ہماری تائید کریں گے، ہمیں غیر ملکی حکومتوں اور بینکاروں کے جانب دیکھنے کی بجائے یہاں بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنی ہوں گی۔ بالآخر ووٹنگ کے ذریعے گاؤں کی زمین کو اجتماعی ملکیت میں لیا جاتا ہے اور ملیشیا کے سپاہی گاؤں چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔

آگے چل کر ایک جگہ جہاں پر انہوں نے کیمپ لگایا ہوتا ہے وہاں ایک دن یونٹ کا کمانڈر انہیں بتاتاہے کہ آج کے بعد ہمیں پاپولر آرمی کا حصہ بننا پڑے گا جو سپین کے کمیونسٹوں (سٹالنسٹوں) کی قیادت میں بنی ہے اور اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمیں ہتھیار نہیں مہیا کیے جائیں گے۔ یہاں پر بھی ان کے مابین اختلاف آ جاتا ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ ہمیں بہتر ہتھیار اور سازگار جنگی ماحول کے لیے پاپولر آرمی کا حصہ بننا ہوگا اور کچھ کہتے ہیں کہ اس آرمی کی مخصوص درجہ بندی اور قوانین و ضوابط میں جا کر ہم انقلابی جذبہ کھو دینگے، ہمیں اپنی ملیشیا کو برقرار رکھنا ہوگا جو اس انقلابی جدوجہد کی اساس ہے۔ ایک سپاہی کہتا ہے کہ یہ روس کی سٹالنسٹ حکومت کی چال ہے اور وہ مغربی ممالک کے ساتھ معاہدے کرنے کے لیے ہمیں اپنے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ کچھ دیر بحث کے بعد اکثریت اس بات پر ووٹ کرتے ہیں کہ ہم اپنی جدوجہد اس عوامی ملیشیا کے ذریعے ہی جاری رکھیں گے۔

کچھ عرصہ بعد ڈیوڈ نئے ساتھیوں کو جنگی تربیت دیتے ہوئے زخمی ہو جاتا ہے اور اسے اپنے یونٹ کو چھوڑ کر علاج کے لیے شہر جانا پڑ جاتا ہے۔ اسی دوران اسے برطانوی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے ہدایات آتی ہیں کہ اب کے بعد اسے ملیشیا چھوڑ کر انٹرنیشنل بریگیڈ میں شامل ہونا ہو گا۔ انٹرنیشنل بریگیڈ درحقیقت تیسری انٹرنیشنل، جو اس وقت سٹالنسٹ زوال پذیری کا شکار ہو چکی تھی، کی ایک پالیسی تھی جس کے تحت دنیا بھر کی کمیونسٹ پارٹیوں کو ہدایات دی گئیں کہ وہ پاپولر فرنٹ کی حکومت کی مدد کے لیے ان کا جنگ میں ساتھ دیں اور عوامی ملیشیاؤں سے سارے رشتے ناطے توڑ دیں۔ ڈیوڈ بھی اپنی پارٹی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے یہ سوچ کر ان میں شامل ہو جاتا ہے کہ اس میں کوئی نہ کوئی بھلائی ہوگی۔ کچھ عرصہ ان کی قیادت میں لڑنے کے بعد اسے اندازہ ہوتا ہے ان کی لڑائی فاشسٹوں کے خلاف کم اور سپین کے اندر موجود باقی رجحانات کے خلاف زیادہ ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ پاپولر فرنٹ کی حکومت انارکسٹوں (Anarchists) اور سوشل ڈیموکریٹس کو اٹھا کر جیلوں میں قید کر رہی ہے اور ان پر الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ یہ جنرل فرانکو کے اتحادی ہیں۔ ایک دن دل برداشتہ ہو کر وہ انہیں چھوڑ کر واپس ملیشیا میں شامل ہونے چلا جاتا ہے۔ ان کے یونٹ کے پاس وسائل بہت کم ہوتے ہیں اور کہیں سے بھی جنگی امداد نہیں آ رہی ہوتی۔ ایک دن انہیں حکومتی فوج گھیر کر کہتی ہے کہ P.O.U.M کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے اور انہیں ہتھیار پھینک کر واپس گھروں کو لوٹنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ ڈیوڈ کے ساتھی دل پر پتھر رکھ کر ہتھیار ڈال لیتے ہیں اور ان میں سے کچھ کو گرفتار بھی کر لیا جاتا ہے۔ ڈیوڈ بھی واپس برطانیہ کے لیے نکل پڑتا ہے اور کہتا ہے کہ انقلاب کسی وبا کی طرح پھیلتا ہے اور اگر ہم کامیاب ہو جاتے تو پوری دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیتے، مجھے اپنی جدوجہد پر کوئی پچھتاوا نہیں اور ہمارا دن ضرور آئے گا۔

ہسپانوی خانہ جنگی کے اسباق

کارل مارکس نے کہا تھا کہ انقلابات تاریخ کا انجن ہوتے ہیں۔ انقلابات اور رد انقلابات کا تاریخ پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے اور یہ ہمارے لیے بہت سارے اسباق لیے ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کا مطالعہ کر کے انہیں درست طریقے سے سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اسی طرح انقلابی قیادت کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور ان کی کامیابیوں اور ناکامیوں سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

ہسپانوی خانہ جنگی اور سپین میں فاشزم کے ابھار میں بھی ہمارے لیے بہت سے اسباق ہیں۔ اگر یہ انقلاب کامیاب ہو جاتا تو سپین نہ صرف ایک بڑی تباہی اور تین دہائیوں سے زیادہ خونخوار آمریت سے بچ جاتا بلکہ باقی دنیا پر بھی اس کے بہت مثبت اثرات پڑتے۔ ہسپانوی محنت کشوں کی جرأت اور فاشسٹوں کے خلاف ایک عظیم مزاحمت ہونے کے باوجود ان کی قیادت انقلاب کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی۔ سٹالنسٹ قیادت براہ راست ماسکو سے ہدایات لے کر ان پر عمل کرتی رہی اور روس کی سٹالنسٹ بیوروکریسی کے پراپیگنڈے کا شکار ہوئی۔ جب انہیں کہا گیا کہ انارکسٹ اور باقی سوشلسٹ پارٹیوں سے اپنی راہیں الگ کر دیں۔ اس کے لیے روسی حکومت نے سوشل فاشزم (Social Fascism) کا لفظ ایجاد کیا اور سوشل ڈیموکریٹس پر الزام لگایا کہ یہ جنرل فرانکو کے ساتھی ہیں۔ اسی طرح P.O.U.M اور انارکسٹ قیادت سے بھی غلطیاں ہوئیں جب وہ کیٹالان میں ایک سرمایہ دار حکومت کے ساتھ اتحاد میں آ گئیں۔ سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے سپین کی جمہوری حکومت مزدوروں اور کسانوں کے بہت سے بنیادی مسائل حل نہیں کر پائی جس کو فاشسٹوں نے بھی اپنے پراپیگنڈے کے لیے استعمال کیا اور کہا کہ جمہوریت نے تمہیں کھانے کے لیے کیا دیا؟ فاشزم کے خلاف کوئی متحدہ محاذ اور محنت کشوں کی طاقت پر یقین رکھنے والی قیادت کی عدم موجودگی کا ناگزیر نتیجہ فرانکو کا اقتدار میں قابض ہونے کی صورت میں نکلا۔ اس کے بعد لاکھوں لوگ جو کسی نہ کسی طرح مزاحمت کا حصہ رہے تھے، اپنی جان بچا کر ملک سے بھاگ نکلے۔ جو رہ گئے تھے، ان میں سے ہزاروں کا قتل عام کیا گیا۔ فرانکو کے وزیر انصاف نے 1939ء سے لے کر 1945ء تک 1 لاکھ 92 ہزار سزائے موت ریکارڈ کیں۔ جن میں اکثر کو گولی مار کر قتل کیا گیا تھا۔ کچھ فرار ہو کر چھپ گئے اور فرانکو کی موت تک چھپ چھپ کر زندگی گزارتے رہے۔

ٹراٹسکی (Trotsky) نے سپین کے اس انقلاب پر انتہائی تفصیل سے لکھا ہے جبکہ اس دوران اس کی سپین کے انقلابی راہنماؤں کے ساتھ خط و کتابت بھی اہمیت کی حامل ہے۔ انقلاب کے دوران بھی وہ سپین میں مارکسی نظریات پر مبنی انقلابی قیادت کی تعمیر کی کاوشیں کرتا رہا اور جلاوطنی میں رہنے اور دیگر مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود سپین میں P.O.U.M اور دیگر ٹراٹسکائیٹ راہنماؤں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہا اور ان کے ساتھ نظریاتی بحثوں میں مصروف رہا۔ اس دوران فاشسٹوں، انارکسٹوں، سٹالنسٹوں اور دیگر فرقہ پرور رجحانات پر بھی مارکسی نقطہ نظر سے بھرپور تنقید کرتا رہا اور سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی وکالت کرتا رہا۔ اس دوران ٹیڈ گرانٹ (Ted Grant) نے بھی سپین کے اس انقلاب پر اہم مضامین لکھے۔

فرانکو 35 سال بعد 1975ء میں بیماری کی حالت میں مر گیا۔ اس کے بعد پورے سپین میں پھر انقلابی لہریں ابھرنے لگیں اور سوشلسٹ، کمیونسٹ پارٹیوں کی ممبرشپ میں بہت بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس موقع کا فائدہ اٹھانے اور سپین میں سرمایہ داری کا خاتمہ کرنے کی بجائے قیادت نے پھر سے موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ وہ پر امن طریقے سے جمہوریت کی طرف منتقلی کی بات کرنے لگے اور پھر سے یہ حقیقت فراموش کردی کہ اصل مسئلہ نظام کی تبدیلی کا ہے۔ اس اہم نکتے کو نظر انداز کیا گیا کہ فرانکو کا جنم سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں سے ہوا تھا اور اسی نظام میں رہتے ہوئے اکثریت کی بھلائی کا سوچنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ اس وقت کے بائیں بازو کے لیڈروں کی اس غداری پر ایلن وڈز (Alan Woods) کی ایک کتاب حال ہی میں شائع ہوئی ہے جس کا نام ”The Great Betrayal“ ہے۔ اس اہم تصنیف میں ایلن وڈز نے 1970ء کی دہائی میں فرانکو کی آمریت کے دوران سپین میں انقلابی پارٹی کی تعمیر اور اپنے ایک دہائی کے تجربات کو بھی قلم بند کیا ہے۔

فلم دیکھتے ہوئے ہمیں مرکزی کردار ڈیوڈ میں بڑی تبدیلیاں نظر آتی ہیں جب وہ اپنے مشاہدے اور تجربات کے ذریعے سیکھتا ہے۔ زمین کے مسئلے پر بحث کے وقت وہ پہلے فاشزم کے خلاف لڑنے کی بات کرتا ہے اور نظریے کی اہمیت سے انکار کرتا ہے۔ اسی طرح بعد میں روس کی سٹالنسٹ حکومت کے پراپیگنڈے کا بھی شکار ہو جاتا ہے مگر بالآخر اپنے تجربات سے سیکھ کر اس پر حقیقت آشکار ہو جاتی ہے۔ فلم میں تمام اداکاروں نے انتہائی مہارت کے ساتھ اپنے کردار نبھائے ہیں جبکہ ڈائیلاگ انتہائی پر اثر ہیں۔ اس کے علاوہ انقلابی ترانوں، محاذ جنگ اور نئے سپاہیوں کی تربیت کے سین بھی انتہائی خوبصورتی کے ساتھ فلمائے گئے ہیں اور حقیقت کے قریب ترین ہیں۔ اس کے علاوہ خانہ جنگی کے دوران رومانوی سین بھی انتہائی دلکش ہیں اور پوری فلم دیکھنے والے کو مسلسل اپنی گرفت میں رکھتی ہے۔ یہ فلم سپین کے اس انقلاب کو ناظرین تک پہنچانے کے حوالے سے ایک اہم کاوش ہے۔ انتہائی ڈرامائی انداز میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ پچھلی نسلوں کے تجربات، حکمرانوں کے پراپیگنڈے کے ذریعے دبائے جانے کے باوجود، نئی نسلوں تک کیسے رسائی حاصل کرتے ہیں اور نئی نسل کا تجسس اس میں کیا کردار ادا کرتا ہے۔

آج بھی دنیا بھر میں جگہ جگہ محنت کشوں کی انقلابی لہریں ابھر رہی ہیں اور اس ظالم نظام کے خلاف نئی تحریکیں بنتی ہوئی نظر آرہی ہیں مگر ان میں قیادت کا شدید بحران پایا جاتا ہے۔ ہمارے سامنے نہ صرف پچھلی تحریکوں کے تجربات ہیں بلکہ ہمارے پاس سائنسی بنیادوں پر استوار مارکسسٹ (Marxist) نظریات بھی موجود ہیں جن کی مدد سے ہم پوری دنیا اور نوع انسان کو بربریت میں دھکیلے جانے سے بچا سکتے ہیں۔ ایسے کئی انقلابات ہیں جن سے ہم بہت کچھ سیکھ کر خود کو قیادتوں کی غلطیاں دہرانے سے روک سکتے ہیں۔ روزا لکسمبرگ (Rosa Luxemburg) نے جرمن انقلاب کی ناکامی کے بعد کہا تھا:
”قیادت ناکام ہوئی مگر ایک نئی قیادت کا جنم لازمی ہے اور یہ ضرور ہو سکتا ہے۔ ایسی قیادت جس کا جنم عوام میں سے اور عوام کے لیے ہو۔ یہی ناکامی مستقبل کی کامیابیوں کا باعث بنے گی۔“

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.