ایلون مسک کا ٹویٹر پر ملکیتی کنٹرول: سوشل میڈیا کو نیشنلائز کیا جائے!

|تحریر: برائس گورڈن، ترجمہ: حارث چوہان|

25 اپریل کو، ٹویٹر نے اعلان کیا کہ اس کا بورڈ آف ڈائریکٹرز ایلون مسک کی جانب سے اس سوشل میڈیا کمپنی کو خریدنے کے لیے 44 بلین ڈالر کی پیشکش قبول کرے گا۔ ابھی کے لیے اس کے شراکت داروں کی منظوری باقی ہے اور معاہدے کو اگلے تین سے چھ ماہ تک حتمی شکل دی جائے گی۔ مسک، جو اس وقت دنیا کا سب سے امیر ترین شخص ہے، جس کی مجموعی مالیت 259 ارب ڈالر ہے، اس معاہدے کی تکمیل کے بعد دنیا کی سب سے بااثر سوشل میڈیا سائٹس میں سے ایک کا مالک بن جائے گا، جسے روزانہ 20 کروڑ سے زیادہ لوگ استعمال کرتے ہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

ایلن مسک کی شہرت کی دوڑ

حالیہ اعلان سے قبل کئی ہفتوں تک مسک کھلے عام اپنے اس ارادے کا اظہار کر رہا تھا۔ اپنے مخصوص عجیب و غریب انداز میں، اس نے اس بات پر زور دیا کہ اس کا یہ فیصلہ زیادہ تر سوشل میڈیا کے اس پلیٹ فارم کے بارے میں اس کے ذاتی خیالات سے متاثر تھا۔ درحقیقت، ٹویٹر، ایک ایسی کمپنی جس کے منافعوں میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، مسک کی سرمایہ کاریوں میں سب سے زیادہ منافع بخش نہیں ہوگی۔ جیسا کہ اس نے خود کہا، یہ ”میں پیسہ کمانے کی خاطر نہیں کر رہا۔۔۔ میرا ذاتی طور پر یہ خیال ہے کہ ایک ایسے عوامی پلیٹ فارم کا ہونا تہذیب کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہے جس پر زیادہ سے زیادہ لوگ بھروسہ کرتے ہوں اور جو ہر طرح کے لوگوں کے استعمال میں ہو۔“

اپنی بے تحاشا دولت کو کہیں پر خرچ کرنے کا راستہ ڈھونڈتے ہوئے، شہرت کی اس دوڑ کے پیچھے بنیادی طور پر مسک کی ٹویٹر میں تبدیلیاں کرنے کی انفرادی خواہش کارفرما تھی، اور جیسا کہ اس کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اسے ذاتی طور پر ”تہذیب کے مستقبل“ میں ایک اہم کردار ادا کرنا ہے۔

ایک ایسا شخص جو اپنے مطابق ”آزادء اظہارِ رائے پر پختہ یقین رکھتا ہے“، اس کا دعویٰ ہے کہ وہ ٹویٹر کے شیئرز کی خرید و فروخت کا خاتمہ کرے گا اور صارفین کے لیے اس کے شرائط و ضوابط میں نرمی لائے گا، جعلی اکاؤنٹس اور آٹومیٹک اشتہارات وغیرہ کو کم کرنے پر کام کرے گا، اور اس کے الگوریتھم (ایک خود کار سسٹم جو صارفین کی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے، مثلاً جس قسم کے پوسٹ کوئی زیادہ دیکھتا ہے تو پھر اسی قسم کے پوسٹ اپنے آپ اس کے سامنے آتی ہیں) کو اوپن سورس بنائے گا یعنی لوگ اس کو دیکھ سکیں گے کہ یہ کس طرح کام کرتا ہے۔ دوسرے بیانات میں، اس نے کہا ہے کہ وہ ٹویٹر کو ”زیادہ سے زیادہ دلچسپ“ بنانا چاہتا ہے، اس کی ”زبردست پوشیدہ صلاحیت“ کو ”آشکار“ کرنے پر کام کرنا چاہتا ہے، اور چاہتا ہے کہ ”پہلے سے بھی زیادہ ملکی آبادی کا حصّہ اسے استعمال کرے اور اس پر ہونے والی بات چیت میں حصّہ لے“ اور ”امریکی آبادی کی اکثریت اسے استعمال کرتے ہوئے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرے۔“

اس نے اشتہارات سے ہونے والی آمدنی پر ٹویٹر کے انحصار کو تبدیل کرنے کے خیال کا بھی اظہار کیا ہے، جس کی بجائے ممکنہ طور پر کارپوریٹ اور سرکاری صارفین سے فیس لی جائے گی۔ جہاں تک سیاسی اعتدال کے سوال کا تعلق ہے، مسک، جو امریکی بورژوا سیاست کی حدود کے اندر کسی حد تک غیر جانبدار سیاسی نظریات کا حامل لبرٹیرین ہے، کہتا ہے کہ اس کے مطابق ایک اچھی اعتدال پسند پالیسی وہ ہے جو انتہائی دائیں اور انتہائی بائیں بازو دونوں اطراف موجود 10 فیصدی لوگوں کو یکساں طور پر بھڑکاتی ہو۔ یہ اسے دیکھنے کا ایک دھندلا طریقہ ہے، اور درحقیقت اس پالیسی کے تحت انقلابی سوشلزم جیسے اقلیتی نظریات کے خلاف غیر جمہوری اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ وہ عملی طور پر کیا کرے گا؛ ایلون مسک کے معاملے میں کوئی پیشن گوئی کرنا خاص طور پر مشکل ہوتا ہے۔ بہرحال، اس معاہدے سے سرمایہ داری کے تحت میڈیا کی نوعیت کا اظہار ہوتا ہے، ایک ایسا نظام جس کے تحت صرف ایک آوارہ انا پرست ارب پتی، اپنی ذاتی خواہش پر عمل کرتے ہوئے، دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کے زیرِ استعمال سوشل میڈیا کے ایک پلیٹ فارم پر تقریباً مکمل اختیارات حاصل کر سکتا ہے۔

آزادیِ اظہارِ رائے

مارکس وادی سرمایہ داری کے اندر بھی زیادہ سے زیادہ اظہارِ رائے کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم بورژوا حکومت اور کارپوریشنز دونوں کی طرف سے اس حق کی خلاف ورزی کی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس طرح وہ بائیں بازو اور مزدور تحریک کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی بھی طرح کی ”غلط معلومات“ پر کریک ڈاؤن کرنے یا ”شدت پسند“ سیاسی خیالات کو سنسر کر کے پولرائزیشن کو روکنے کیلئے ٹویٹر یا پھر کسی سرکاری ادارے پر انحصار کرنا دراصل غلط خیال ہے، یوں اس قسم کے خیالات کے پھیلاؤ کی بنیادی وجوہات کو سمجھا نہیں جاسکتا۔

ٹرمپ ازم کا عروج، سائنسی اداروں پر اعتماد کا فقدان، سازشی تھیوریوں میں دلچسپی کا بڑھنا وغیرہ بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ معاشرے کے زوال کی علامات ہیں اور سنسر شپ کے ذریعے اس کی شدت میں کمی نہیں لائی جا سکتی۔ ”حقائق کی جانچ“ اور ”نگرانی“ جیسی لفاظی سرا سر دھوکہ ہیں۔ ظاہر ہے، ”حقائق“ کی پہچان کے فیصلوں اور ”نگرانی“ تک ایک مخصوص اقلیتی طبقے کی رسائی ہوتی ہے۔

ہم مسک کے ساتھ ذرا بھی ہمدردی نہیں رکھتے اور اس کی کوئی بھی حمایت نہیں کرتے، اور ہم اس سے آزادیِ اظہارِ رائے کو حقیقی معنوں میں یقینی بنانے کے حوالے سے بالکل بھی توقعات نہیں رکھتے۔ ہم قطعاً اس حق کے دفاع کے لیے انفرادی سرمایہ داروں کی آراء پر انحصار نہیں کر سکتے۔ وہ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ آزادیِ اظہارِ رائے کو قانونی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے، جو حکومتی پالیسیوں کو ”عوام کی مرضی“ سمجھتا ہے، اس بات کو نظر انداز کر کے کہ بورژوا جمہوریت کے دکھاوے میں کروڑوں افراد کو اس میں حصّہ لینے سے روک دیا جاتا ہے یا پھر وہ خود اکتا کر اس میں حصّہ لینے کی زحمت نہیں کرتے۔

اس کے بیانات سے اس کی تنگ نظر قوم پرستی کی بھی عکاسی ہوتی ہے، جو ”امریکیوں“ کو ٹویٹر کے استعمال کی جانب مائل کرانا چاہتا ہے۔ میانمار میں فوجی آمریت کے تحت اذیتیں جھیلنے والے عوام کا کیا؟ کیا مسک سمجھتا ہے کہ وہاں کی حکومت میں ”عوام کی مرضی“ شامل ہے؟ ان سوالات کے جوابات ہمیں مستقبل میں مل جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس نے پہلے سے اس بارے میں زیادہ سوچا بھی نہیں ہے۔

بہرحال، ہم سمجھتے ہیں کہ مسک،جو مہارت یافتہ محنت کشوں اور نوجوانوں کے بیچ اپنے مخصوص بدسلوک رویے اور اپنے ملازمین کا شدید استحصال کرنے کے لیے جانا جاتا ہے، اور جس کے ایک دوسرے سے الگ تھلگ چلنے والے ٹیسلا کے کارخانوں کے اندر سیاہ فام ملازمین کے مطابق غلامانہ سلوک کیا جاتا ہے، وینز ویلا کے اندر ہڑتال کرتے محنت کشوں یا انقلابی سوشلسٹوں کے آزادیِ اظہارِ رائے کے حقوق کے ساتھ کچھ زیادہ ہمدردی نہیں رکھے گا۔

جہاں تک مسک کے دوسرے ”خیالات“ کا تعلق ہے، اگرچہ ان میں سے کچھ کافی معصوم لگتے ہیں، اس قسم کے سوالات، جو کروڑوں لوگوں کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں، کا تعین جمہوری طریقے سے کیا جانا چاہیے، نہ کہ ایلون مسک کی ذاتی خواہشات کی بنیاد پر۔

سوشل میڈیا کو نیشنلائز کیا جائے!

آگے چاہے جو بھی ہو، مسک کے ٹویٹر خریدنے کے اقدام سے اٹھنے والے سوالات اس بات کی یاددہانی کرا رہے ہیں کہ سرمایہ داری کے تحت ”آزادیِ اظہارِ رائے“ ہمیشہ ایک جھوٹا فسانہ رہا ہے۔ یہ ”حق“ ان اکثریتی لوگوں کے لیے ہمیشہ بے معنی رہا ہے جن کے پاس سرمایہ دارانہ ذرائع ابلاغ کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار دیوہیکل رقم موجود نہیں ہے۔ ”سوشل میڈیا“ اسی طرح پروان چڑھا ہے اور آج بھی ایسے ہی چل رہی ہے۔ یقیناً، امریکہ میں ہر کسی کے پاس ٹویٹر خریدنے اور اس میں من چاہی تبدیلیاں کرنے کا حق موجود ہے، مگر اس کے لیے 44 ارب ڈالر درکار ہے۔ سرمایہ داری کے تحت یہی ”آزادی“ ہے۔

بائیں بازو کے لبرلز نے مسک کی اس خریداری کو ”امیر ہونے کی انتہا“ قرار دیا ہے۔ مگر اس قسم کی بیکار خود کلامیاں فضول ہیں، جن میں محض ظاہری حقائق کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خونخوار سرمایہ داروں کا کونسا دھڑا ٹویٹر کا مالک ہے۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک حقیقی حل ہے: یعنی تمام بڑی میڈیا کمپنیوں کو محنت کشوں کے جمہوری اختیارات کے تحت قومیانا۔

انٹرنیٹ کو متعارف کروانے والے افراد کو ایک یوٹوپیائی جمہوری مستقبل کی امیدیں تھیں، جہاں سب کو معلومات شیئر کرنے اور ان تک رسائی کی یکساں طور پر اجازت ہو۔ مگر سرمایہ داری کے منطق نے ان امیدوں کے اوپر ناگزیر طور پر پانی پھیر دیا۔ دو دہائیوں کے دوران، انٹرنیٹ ڈیٹا کی وسیع اکثریت مٹھی بھر نجی سوشل میڈیا سائٹس تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، اور یہی سائٹس اب اربوں لوگوں کے بیچ معلومات شیئر ہونے کے طریقے کا تعین کرتی ہیں۔

مثلاً ٹویٹر، جو مسک کے مطابق ایک ”ڈیجیٹل عوامی پلیٹ فارم“ ہے، پر سنجیدہ اور طویل بحث مباحثے کرنا ناممکن ہے اور اس کی بجائے ایک ٹویٹ کے لیے 280 حروف کی حد مقرر کی گئی ہے جس میں اپنے خیالات کو پوری طرح بیان نہیں کیا جا سکتا، اس کے علاوہ ٹویٹ کیے جانے والا مواد ان خود کار الگوریتھم کی بنیاد پر وائرل ہوتا ہے جو صارفین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یہ ”ڈیجیٹل عوامی پلیٹ فارم“ کو چلانے کا کوئی بہتر طریقہ نہیں ہے۔ محنت کش طبقہ اس کی نسبت بہت بہتر طریقے سے اسے چلا سکتا ہے اور انٹرنیٹ کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اس انداز میں آشکار کر سکتا ہے کہ جیسا پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔

اس مقصد کے لیے، ہمیں محنت کشوں کی حکومت کے لیے لڑنا ہوگا جس کے تحت پریس، ٹی وی، ریڈیو اور سوشل میڈیا کو نیشنلائز کیا جائے گا اور جمہوری طریقے سے وسائل اور رسائی کو فراہم کیا جائے گا تاکہ حقیقی معنوں میں آزادیِ اظہارِ رائے کو یقینی بنایا جا سکے۔ معقول طور پر منظم کی گئی منصوبہ بند معیشت کی بنیاد پر، ہم تنخواہ میں کمی کیے بغیر ہفتہ وار کام کو 20 گھنٹے تک کم کر سکتے ہیں، اور پرنٹنگ پریس، ویب سرور سپیس، ریکارڈنگ کے آلات اور ذرائع ابلاغ تک سب کے لیے مناسب رسائی فراہم کر سکتے ہیں۔ ہم اکثریتی محنت کش طبقے کے مفادات کے مطابق سوشل میڈیا کو دوبارہ بنیادوں سے تعمیر کریں گے۔ اس قسم کا پروگرام صورتحال کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دے گا اور اربوں لوگوں کی ثقافتی، سیاسی اور فکری زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔ محنت کش طبقے کے علاوہ کوئی بھی طاقت اس قسم کی تبدیلی برپا کرنے کی اہل نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.