لیون ٹراٹسکی کی 81 ویں برسی؛ جرات و استقامت کا استعارہ

|تحریر: یار یوسفزئی|

یہ 24 مئی 1940ء کی رات تھی۔ وہ اپنے وطن سے ہزاروں میل دور میکسیکو میں جلا وطنی کی حالت میں قیام پذیر تھا۔ دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد وہ نیند کی گولی کھا کر سو رہا تھا، جب صبح کے چار بجے اس کے گھر پر گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔ اس کی بیوی نے مدد کرتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بننے سے اسے بچا لیا۔ مگر دوسرے کمرے میں ان کے 14 سالہ نواسے کے پاؤں میں ایک گولی لگی اور وہ روتے ہوئے ”دادا ابو!“ پکارتا رہا۔ حملہ بڑا شدید تھا۔ مجموعی طور پر تقریباً 200 گولیاں فائر کی گئیں، جن میں سے 100 کے قریب براہِ راست ان کے کمرے پر جا لگیں۔ بہرحال یہ قاتلانہ حملہ ناکام رہا۔

20 اگست 1940ء کو جب وہ اپنے سٹڈی روم میں بیٹھا مطالعہ کر رہا تھا تو اس کے ایک باڈی گارڈ رامون میرکادیر نے پیٹھ پیچھے برف کی کلہاڑی سے اس کے سر پر وار کیا، جو اس کے سر میں 7 سینٹی میٹر تک اندر چلی گئی۔ شدید چوٹ لگنے کے باوجود اس نے مڑ کر رامون پر تھوکا اور اس کے ساتھ ہاتھا پائی شروع کر دی، جس کے نتیجے میں اس نے رامون کا ہاتھ توڑ دیا۔ شور و غل سن کر اس کے دیگر باڈی گارڈز کمرے میں داخل ہوئے اور رامون کو بری طرح پیٹنے لگے۔ اس نے ان کو روکتے ہوئے کہا: ”اسے اپنی حرکت کا جواب دینے دو!“۔ اسے زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کر کے علاج شروع کیا گیا مگر چوٹ اتنی شدید تھی اور خون اتنا بہہ چکا تھا کہ ایک دن بعد، 21 اگست 1940ء کو، وہ 60 سال کی عمر میں شہید ہو گیا۔

یہ شخص عظیم روسی انقلابی لیون ڈیوی ڈووچ برانسٹائن تھا، جو اپنے قلمی نام ٹراٹسکی سے معروف ہے۔ اگر آپ ٹراٹسکی کی شخصیت سے نا واقف ہیں تو آپ سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ اپنے وطن سے ہزاروں میل دور اس کے اوپر بزدلانہ طور پر یہ قاتلانہ حملے کیوں کیے گئے؟ اس کی وجہ کوئی ذاتی دشمنی نہیں بلکہ وہ نظریات تھے جس کے لیے ٹراٹسکی نے اپنی پوری زندگی وقف کر دی تھی؛ مارکسزم کے حقیقی نظریات۔ ابتدائی سیاسی شعور حاصل کرنے کے بعد وہ مرتے دم تک سچائی پر ڈٹا رہا اور اس حوالے سے کبھی بھی مفاہمت و مصالحت کا راستہ نہیں اپنایا۔ اس جدوجہد میں اس نے اپنے دو بیٹے کھوئے، جلا وطن ہونا پڑا اور طرح طرح کی ذہنی و جسمانی صعوبتیں جھیلنی پڑیں مگر مارکسزم کا دفاع کرنا اس نے کبھی نہیں چھوڑا۔

ٹراٹسکی 17 سال کی عمر میں ہی سیاسی طور پر سرگرم ہو چکا تھا، جس کی پاداش میں زار شاہی حکومت نے 1898ء میں اسے گرفتار کر لیا۔ بعد ازاں 1900ء میں اسے سائبیریا جلا وطن کیا گیا۔ اس نے لینن کے شانہ بشانہ اکتوبر 1917ء کے انقلابِ روس کی قیادت کی، سرخ فوج کا قیام عمل میں لایا اور جب 21 ممالک کی بیرونی افواج نے انقلاب کا گلا گھونٹنے کے لیے روس پر حملہ کیا تو وہ اس کے دفاع میں پیش پیش رہا اور انقلابی فوج کی رہنمائی کرتا رہا۔ مختصر عرصے پر مشتمل پیرس کمیون کے بعد انقلابِ روس تاریخ کا وہ عظیم واقعہ تھا جب محنت کشوں نے یہ ثابت کر کے دکھایا کہ مفت خور سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ان کے سیاسی نمائندوں کے بغیر بھی ملک کا نظم و ضبط چل سکتا ہے۔ روس کے اندر سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکا گیا تھا اور ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لے کر اکثریت کے مفادات کے لیے نئی بنیادوں پر سماج کو تعمیر کیا جا رہا تھا۔

مگر جیسا کہ سرمایہ داری ایک عالمی نظام ہے، اسی طرح اس کے خاتمے کے لیے دیگر ممالک تک سوشلسٹ انقلاب کا پھیلاؤ نہایت ضروری ہے۔ بد قسمتی سے روس کا انقلاب ایک ملک میں تنہا رہ گیا تھا، جس کے باعث وہاں پر افسر شاہی پروان چڑھ رہی تھی۔ جب 1924ء میں لینن فوت ہوا تو سٹالن اس افسر شاہی کے نمائندے کے طور پر سامنے آیا۔ یہ محنت کش عوام سے کٹی ہوئی ایک پرت تھی جو ان کے اختیارات کو بتدریج کم کرتی جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ چین میں رونما ہونے والے انقلابی واقعات کے معاملے میں افسر شاہی اور سٹالن رجعتی چیانگ کائی شیک کی حمایت کر رہے تھے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کو بھی اس کا ساتھ دینے کی تلقین کر رہے تھے۔ جبکہ ٹراٹسکی کے نزدیک کائی شیک کی حمایت کرنے کی بجائے کمیونسٹ پارٹی کو ایک آزادانہ پرولتاری انقلاب کی جانب بڑھنا چاہیے تھا۔ بعد میں کائی شیک کی غداری نے ٹراٹسکی کو درست ثابت کیا جب اس نے کمیونسٹوں کا قتلِ عام کیا۔

ان سارے اختلافات کے باعث ٹراٹسکی کے گرد روسی کمیونسٹ پارٹی کے اندر ایک متحدہ حزبِ مخالف بنائی گئی، جو افسر شاہی کی غلط پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی تھی۔ جمہوری بحث مباحثوں کی بجائے ان کے خلاف منظم طریقے سے الزام تراشیوں اور غلط بیانیوں کی مہم شروع کی گئی، جس میں بالشویک روایات پر ڈٹے انقلابیوں کو پارٹی سے برطرف کیا جاتا رہا اور کئی کا قتلِ عام بھی کیا گیا۔ اس سلسلے میں 1927ء میں ٹراٹسکی کو مرکزی کمیٹی سے بر طرف کر کے اگلے سال جلا وطن کیا گیا۔ مگر سچائی کی راہ میں قومی حدود حائل نہیں ہو سکتیں۔ ٹراٹسکی جلا وطن رہ کر بھی دنیا بھر میں انقلابی قوتوں کو منظم کرتا رہا۔ وہ اگر ایک جانب مسخ شدہ مزدور ریاست کا دفاع کررہا تھا تو دوسری جانب افسر شاہی کے غلط اقدامات اور نظریاتی غداریوں کو بھی بے رحمانہ تنقید کا نشانہ بنا رہا تھا۔ جس کے باعث جلا وطن رہ کر بھی وہ سٹالن کے حملوں کا شکار رہا اور بالآخر میکسیکو میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

ٹراٹسکی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ نظریاتی طور پر بہت کلیدی خدمات سر انجام دیں۔

 

ٹراٹسکی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ نظریاتی طور پر بہت کلیدی خدمات سر انجام دیں۔ اگرچہ انقلابِ روس نے انقلاب کا کردار واضح کر دیا تھا مگر پھر بھی سٹالنسٹوں کی جانب سے مرحلہ واریت کا نظریہ پیش کیا گیا تھا، جس کے مطابق کسی پسماندہ ملک میں سوشلسٹ انقلاب لانے کے لیے پہلے ضروری ہے کہ وہاں پر سرمایہ داری کو پروان چڑھایا جائے۔ اس کے مقابلے میں ٹراٹسکی کا نظریہ انقلابِ مسلسل وضاحت کرتا ہے کہ پسماندہ ممالک میں سوشلسٹ انقلاب کا کردار دوہری نوعیت کا ہوگا؛ وہ جمہوری فرائض بھی پورے کرے گا اور مزدور آمریت بھی قائم کرے گا۔ یعنی اس سے پہلے ایک لمبے عرصے تک مقامی سرمایہ داروں کی کاسہ لیسی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح سٹالنسٹ اپنے مخصوص ذاتی مفادات کی خاطر ایک ملک میں سوشلزم کا پرچار کرتے رہے، جبکہ ٹراٹسکی بین الاقوامیت کے نظریے پر قائم رہا جو حقیقی مارکسزم کی اساس ہے۔ اس کے علاوہ تاریخی مادیت کے مضمون میں اس نے ایک اہم پہلو کو زیرِ بحث لایا، جسے ناہموار اور مشترکہ ترقی کا قانون کہا جاتا ہے۔ اس قانون کے بغیر انسانی سماج کے ارتقاء کو کامل طور پر سمجھ پانا ممکن نہیں رہتا اور مرحلہ واریت جیسے مغالطوں کے جنم لینے کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔

مارکسزم کے حقیقی نظریات کا پرچم بلند کیے انقلابیوں کی تعداد، ٹراٹسکی سمیت بے شمار انقلابیوں کی شہادت کے باعث، چھوٹی اقلیت تک محدود ہو کر رہ گئی۔ دوسری جانب سوویت یونین، جو افسر شاہی کی جکڑ بندیوں کے باعث ایک مسخ شدہ مزدور ریاست بن چکی تھی، کو غلط طور پر کمیونزم کے رول ماڈل کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ اس عمل کے اثرات آج بھی کسی حد تک سماج میں پائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے سٹالنزم کو ہی مارکسزم تصور کیا جاتا ہے۔ جبکہ در حقیقت اس کا دور دور تک مارکسزم سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے برعکس ٹراٹسکی ازم کوئی مختلف چیز نہیں بلکہ مارکسزم کا ہی تسلسل ہے، جو افسر شاہی سے آزاد اور خود مختار مزدور جمہوریت کا دفاع کرتا ہے۔ آج سرمایہ داری کے باعث دنیا کے تمام ممالک کا ایک دوسرے پر انحصار پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ چکا ہے، اسی وجہ سے اس انسان دشمن نظام کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایک ملک کی حدود کے اندر نہیں بلکہ مزدور اخوت پر مبنی عالمی سطح پر جدوجہد کو منظم کیا جائے۔ مارکس اور اینگلز اسی لیے پہلی انٹرنیشنل کا حصّہ تھے، لینن اور ٹراٹسکی نے اسی لیے تیسری انٹرنیشنل کو منظم کیا تھا۔ آج کے دور میں ٹراٹسکی کا یہی ورثہ ہے کہ مارکسزم کے حقیقی نظریات کا دفاع کرتے ہوئے محنت کشوں کی انقلابی پارٹی کو منظم کیا جائے اور بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر انسانی تہذیب کو مٹنے سے بچایا جائے۔ اس تاریخی فریضے کو نبھانے کے لیے ہر با شعور نوجوان کو جدوجہد کے میدان میں اترنا پڑے گا، تاکہ ٹراٹسکی سمیت انسانیت کی خاطر قربان ہونے والے بے شمار انقلابیوں کی جدوجہد کو عملی جامہ پہنایا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.