ملتان: بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے بلوچ طلبہ کی طویل جدوجہد رنگ لے آئی، تمام مطالبات منظور!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، ملتان|

بلوچ طلبہ اپنے حقوق کے لیے ڈیڑھ ماہ سے جاری جرأت مند لڑائی، جس میں 40 دن کا یونیورسٹی گیٹ کے سامنے دھرنا، ملتان سے لاہور تک پیدل مارچ اور لاہور میں چیئرنگ کراس پر دو دن کا دھرنا شامل ہے، میں فتح یاب ہو گئے ہیں۔ ہم سب سے پہلے پروگریسو یوتھ الائنس کی طرف سے سرخرو ہونے والے بلوچ طلبہ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کیونکہ ان کی انتھک جدوجہد سے یہ لڑائی بلاشبہ طلبہ تحریک کے لیے اہم سنگِ میل ثابت ہو گی اس کے ساتھ ساتھ پروگریسو یوتھ الائنس سمیت وہ تمام طلبہ تنظیمیں بھی مبارک باد کی مستحق ہیں جنہوں نے بلوچ طلبہ کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ان کا ساتھ دیا۔ بلوچ طلبہ کے بنیادی مطالبات میں طلبہ کی کم کی گئیں ریزرو سیٹوں کی بحالی، سکالرشپس کی بحالی اور قبائلی علاقہ جات کے طلبہ کے لیے سکالرشپس کے مطالبات شامل تھے۔ بلوچ طلبہ کی یہ جدوجہد حالیہ تاریخ کی سب سے لڑاکا، کٹھن، جرات مندانہ جدوجہد تھی۔ بلوچ طلبہ کی اس جدوجہد نے حکمرانوں کو ان کی بات سننے پر مجبور کیا اور آخر کار ریاست گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی۔ دوسری طرف گورنر ہاوس کے سامنے پشتون طلبہ کا دھرنا ابھی جاری ہے۔ پشتون طلبہ کے جزوی طور پر مطالبات منظور کیے گئے ہیں لیکن وہ حالیہ جاری کردہ نوٹیفیکیشن سے رضا مند نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مطالبات کی سو فیصد منظوری تک ان کا دھرنا جاری رہے گا۔

جیسا کہ ہم نے لکھا ہے کہ یہ لڑائی طلبہ تحریک کے لیے اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، تواس فتح کا جشن منانے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس کی چند باتوں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ سب سے پہلی بات جو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے وہ یہ ہے کہ یہ طلبہ کی یہ فتح صرف اور صرف لڑاکا طلبہ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ کئی دنوں سے یہی طلبہ دھرنے دے رہے تھے اور احتجاج کر رہے تھے لیکن تب حکومت یا کسی اپوزیشن پارٹی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی۔ جب طلبہ کی ہمت اور مستقبل مزاجی نے حکومت کے علاوہ عوام کو بھی اپنی طرف متوجہ کر لیا اور طلبہ اپنی کامیابی کی طرف بڑھ رہے تھے تب اپوزیشن پارٹیوں کے نمائندگان بھی اپنی جھوٹی اور کھوکھلی ہمدردیاں لے کر پہنچ گئے حتیٰ کہ مریم نواز کو بھی دھرنے میں شریک ہونا پڑا۔

ہم یاد دلانا چاہتے ہیں کہ یہ تعلیم دشمن پالیسیاں صرف اس حکومت کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ یہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دورِ حکومت میں لاگو کی گئی پالیسیوں کا ہی تسلسل ہیں جن میں بلاشبہ اضافہ ہوا ہے۔ اپنے دورِ حکومت میں یہی سیاسی جماعتیں احتجاج کرنے والے طلبہ پر لاٹھی چارج بھی کرتی رہی ہیں۔ غرض یہ کہ حکمران طبقے کی نام نہاد ہمدردیوں اور تسلیوں کے سحر میں آئے بِنا، ان کے اصلی چہروں کی پہچان رکھتے ہوئے طلبہ کو مستقبل میں بھی اپنے زورِ بازو پر یقین رکھنا ہو گا۔ معاشی بحران جس قدر بڑھتا جا رہا ہے، یہ واضح ہے کہ حکمران طبقہ مستقبل میں اس بحران کا بوجھ عام عوام پر ہی گرائے گا اور مستقبل میں چاہے جو بھی حکومت آئے وہ ان طلبہ اور مزدور دشمن پالیسیوں میں شدت ہی لائے گی۔ لہٰذا ہمیں ان سے خبردار رہنا ہو گا اور ملک گیر طلبہ اتحاد پر اپنی جدوجہد کی بنیاد رکھنی ہو گی۔

دوسرا سبق جو اس تحریک سے حاصل ہوتا ہے وہ یہ کہ ماضی میں بھی بے شمار احتجاج ہوئے جن سے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے اور مختلف اداروں کے طلبہ صرف اپیلیں ہی کرتے رہ گئے۔ چند ایک مثالیں ملتی ہیں جہاں طلبہ نے اپنے مطالبات منوائے جن میں قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ کی جدوجہد قابلِ ذکر ہے۔ ان کامیاب تحریکوں اور اس شاندار فتح میں ایک چیز مشترک ہے وہ یہ کہ یہ طلبہ کی اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے لڑی جانے والی مستقل لڑائیاں تھیں۔ حکومتی بیان بازیوں پہ یقین نہ کرتے ہوئے طلبہ نے آخر تک جدوجہد جاری رکھی۔ مستقبل میں بھی طلبہ کو یہ سبق ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ ناقابلِ مصالحت جدوجہد ہی واحد راستہ ہے۔ عوام دشمن ریاست طلبہ کو ان کے حقوق آسانی سے نہیں دے گی بلکہ طلبہ کو وہ حقوق اسی طرح لڑ کر چھیننا پڑیں گے۔

آخری اور سب سے اہم بات جو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ صرف چند بلوچ طلبہ نے ڈیڑھ ماہ کی جرأت مندانہ جدوجہد سے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کر دیا تو ملک گیر سطح پر طلبہ کا اکٹھ کیا کیا کر سکتا ہے؟ اسی لیے پروگریسو یوتھ الائنس ہمیشہ سے ”ایک کا دکھ، سب کا دکھ“ کا نعرہ بلند کرتا رہا ہے۔ نوجوان ساتھیو! یہ شاندار فتح کے آغاز کا بھی آغاز ہے، منزل ابھی نہیں آئی۔ ابھی طلبہ تحریک نے صرف انگڑائی لی ہے اور ایوان لرز اٹھے ہیں۔ ساتھیو! ملک گیر طلبہ اتحاد کی جانب بڑھو! رنگ، نسل، قوم، مذہب، جنس، زبان اور ہر قسم کی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے طبقاتی بنیادوں پر ایک ملک گیر اتحاد کی طرف قدم بڑھاؤ! جب یہ اتحاد قائم ہو گیا اور پورے ملک کے طلبہ سڑکوں پر نکلیں تو مفت تعلیم، روزگار اور طلبہ یونین کی بحالی کے مطالبات کو بھی منظور کروایا جا سکتا ہے اور ہر تعلیم دشمن اقدام کا راستہ روکا جا سکتا ہے!
ایک کا دکھ سب کا دکھ!
طلبہ اتحاد زندہ باد!

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.