افسانہ:تکمیل

|تحریر:نیر مصطفی|

takmeel a short story by nayyar mustafa

خدا نے آدم کو تخلیق کیا تو شیطان نے بغاوت کردی۔۔۔اگر آدم کی تخلیق نہ ہوتی تو شیطان بغاوت نہ کرتا۔۔۔خدا نے حوا کو آدم کی پسلی سے پیدا کیا اور اُن کے دِلوں میں ایک دوسرے کیلئے محبت پیدا کردی۔۔۔ اگر حوا کو پیدا نہ کیا جاتا تومحبت جنم نہ لیتی۔۔۔آدم اور حوا نے شیطان کے بہکاوے میں آکر شجرِممنوعہ کھایا اور راندۂ درگاہ ہوکر زمین پر اتارے گئے۔۔۔ اگر بہکاوا نہ ہوتا توآدم اور حوا زمین پر نہ اتارے جاتے۔۔۔اِن دونوں کے ملاپ سے نسلِ انسانی کی ابتداء ہوئی۔۔۔اگریہ دونوں ملاپ نہ کرتے تو نسلِ انسانی کا آغاز نہ ہوتا۔۔۔طوفانِ نوح نے صرف بیاسی لوگوں کو چھوڑکر ساری دنیا کو لقمہئ اجل بنا ڈالا۔۔۔اگریہ بیاسی لوگ بھی ڈوب جاتے تَو دنیا کی ہر کہانی وہیں دم توڑدیتی۔ نہ خدا آدم کو تخلیق کرتا، نہ شیطان بغاوت کرتا، نہ حوا جنم لیتی، نہ دونوں شجرِممنوعہ کھاتے، نہ زمین پر اتارے جاتے، نہ ملاپ کرتے، نہ انسان پیدا ہوتے اور اگریہ سب کچھ ہوہی گیا تھا توکاش طوفانِ نوح، باقی ماندہ بیاسی لوگوں کوبھی بہا لے جاتا۔۔۔ دنیا کے نظام کو قائم دائم رکھنا مقصود تھا بھی، تو مجھے کیوں ایک فالتو پر زہ بناکر اِس خرابے میں جھونکا گیا؟

Short-Story-Takmeel-by-nayyar-mustafa

انسان یا تو مرد ہوتا ہے یا عورت، اور جو اِن دونوں کے بیچ بیچ میں ہوتا ہے، وہ کچھ بھی نہیں ہوتا، شاید اِسی لئے میری ماں نے میرے پیدا ہوتے ہی رونا شروع کردیا اور میرا باپ مجھے ایک گندے سے کپڑے میں لپیٹ کرمیرے قتل کے منصوبے بنانے لگا۔۔۔ اگر اُس دن دائی ماں، گروجی کے کانوں میں میری پیدائش کی بھنک نہ ڈالتی تومعلوم نہیں آج میں کہاں ہوتی۔۔۔گروجی نے ودھائی لینے کیلئے آواز لگائی تو واپسی پر مجھے لے کر ہی پلٹے۔

فطرت تھوک کے اعتبار سے مردانگی بانٹتی ہے مگر وجاہت کی تقسیم کے وقت ڈنڈی مارجاتی ہے؛ تقدیر نسوانیت دینے میں بُخل نہیں کرتی مگرحسن عطاء کرتے ہوئے کنجوسی سے کام لیتی ہے۔ مجھے نہ مردانگی ملی نہ نسوانیت، مگر خوبصورتی اِتنی فیاض سے عطا ء ہوئی کہ گروجی میرا چہرہ دیکھ کر ناچ اُٹھے اور فٹ سے مجھے ”ریشم“ کانام دے دیا۔

میں پانچ برس کی تھی جب میرے پیروں میں گھنگر و ڈالے گئے۔ جب کبھی اپنے مرمریں جسم کو لچکا کر کتھک کا کوئی نیا آسن شروع کرتی توگروجی بے اختیار میرا منہ چوم لیتے۔مجھے یاد ہے کہ جس روز میں پہلی بار پنڈال میں اتری تو اِتنے سکے گرے اور اِتنے نوٹ برسے کہ ہم سب کی جیبیں بھر گئیں مگر تماش بینوں کے ہاتھ نہیں رکے۔ لوگوں نے میرے گالوں پر اِتنی چٹکیاں کاٹیں کہ وہ انارکی طرح سرخ ہوگئے پر میں کسی کو روک ہی نہیں سکی۔۔۔اگر روکتی تو دھندہ کیسے کرتی کہ ہمارا توکام ہی لوگوں کو خوش کرنا ہے، خودچاہے دکھ سے مر جائیں۔

Short Story Takmeel

جب میری شادی ہوئی تو اُس وقت میں پندرہ برس کی نوخیز کلی تھی۔ شہر کے سارے ہیجڑے، گروجی کی کھولی میں اکٹھے ہوئے اور تالیاں بجا بجا کر ناچتے رہے۔ مذہب سے چھپ کر اور سماج سے بچ کر، صدیوں سے ہماری شادیاں ہوتی آئی ہیں۔ ہم دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں کیونکہ زندگی ہمارے چہروں پر دھول پھینکتی ہے۔ بڑے بڑے گھروں کے لڑکے اپنی ساری جائیدادیں بیچ کر ہماری تمنا کرتے ہیں، عالیشان سیٹھ ہمیں اپنے محلوں میں سجا کر فخر محسوس کرتے ہیں اور بڑے بڑے سیاستدانوں میں ہمارے حصول کیلئے جنگیں ہوتی ہیں۔ ہم رات کی تاریکیوں میں اِتنے راز جان لیتے ہیں کہ اگر دن کے اُجالوں میں زبان کھول دیں تو حکومتوں کے ایوان لرز جائیں اور کئی نام نہاد عظیم رہنماؤں کے بت دھڑام سے گر کر پاش پاش ہوجائیں، مگر ہمارے نصیب میں خاموشی ہی لکھی ہے۔

قانون دروازے بناتاہے اور مجرم چوردروازے۔ دن کے اُجالے میں قانون کابول بالا کرنے والے شیخ صاحب، رات کی تاریکی میں مجرموں کی طرح دبے پاؤں آتے اور چور دروازے استعمال کرکے لوٹ جاتے۔ میں ہر رات خوب سج سنور کر اُن کا انتظار کرتی اور اُن کے جانے کے بعد خوب دھاڑیں مار مار کر روتی۔ اُنہوں نے میرے جسم کی نہر کو اذیت کا دریا بنا دیااور جب نہر کا پانی خشک ہونے لگا تو آزادی کا پروانہ تھما دیا۔

ٹھیک تین ماہ بعد میری گو د بھرائی کی رسم ہوئی۔ ہماری گود بھرائی کی رسم بھی عجیب ہوتی ہے۔ہمیں شادی کے جوڑے پہنا کر اور خوب میک اپ تھوپ کر تیار کیا جاتا ہے۔ ساری ٹولی خوشی کے گیت گاتی ہے۔ گروجی پیروں میں گھنگرو باندھ کر ناچتے ہیں۔ پھر ایک گڈا ہماری گود میں رکھ دیا جاتا ہے جسے سب باری باری چومتے ہیں اور خوشی سے تالیاں بجاتے ہیں۔ رسم کے ختم ہوتے ہی گڈے کے گلے میں رسی ڈال کر اُسے چھت سے لٹکا دیا جاتا ہے اور اگلے دن سوگ منایا جاتاہے۔ اُس دن نہ کوئی ہیجڑا گاتا ہے، نہ ناچتاہے، نہ ہنستا ہے، نہ بولتا ہے اور نہ ہی تالی بجاتاہے۔۔۔ہماری بے بسی دیکھیے کہ دلوں میں حسرتوں کے بیج بو کر خوابوں کی آبیاری کرتے ہیں اور ہماری سفاکی دیکھیے کہ خود اپنے ہی ہاتھوں سے اُن کاگلا گھونٹ کر اُنہیں مار دیتے ہیں۔

شہر میں تھیڑوں کا رواج چلا تومیں پنڈال سے نکل کر اسٹیج پر جا پہنچی۔ شاہ جی کے ساتھ میرا پہلاہی ڈرامہ اِتنا ہٹ ہواکہ اُنہوں نے میرے ساتھ دو سال کا معاہدہ کرلیا۔ میں نے اگلے پانچ برسوں میں اِتنے پیسے کمائے کہ ہم لکھ پتی ہو گئی اور کرائے کی کھولی چھوڑ کر ایک ماڈرن ہاؤسنگ سوسائٹی میں منتقل ہو گئے۔۔۔زندگی کتنی آسان، اور ایک شان دار ترتیب میں آگے بڑھ رہی تھی مگرافسوس، سحرش نے سب کچھ تباہ کر دیا۔

میں اُس دن گروجی کے ساتھ بابا شاہ رکنِ عالم کے مزار پر چاولوں کی دیگ تقسیم کرنے گئی تھی جب میں نے اُسے پہلی بار دیکھا۔ اُس کا رنگ اِتنا گلابی تھاکہ جیسے کسی نے دودھ میں روح افزا گھول دیا ہواور نقش اِتنے تیکھے کہ جیسے صدیوں کی ریاضت سے تخلیق ہوئے ہوں۔۔۔میرا جی چاہا کہ اُسے چھو لوں مگر اُس کی آنکھوں میں اِتنی یاسیت تھی کہ میں بے اختیاراپنی جگہ پر رک گئی۔۔۔مجھے یوں لگا کہ اگر میں نے اُسے غلطی سے بھی چھو لیا تو میرے جسم کی غلاظت اُس کی پاکیزگی کو مجروح کردے گی اورمیں وہیں کھڑی کی کھڑی رہ گئی، یہاں تک کہ وہ بھیڑ میں گم ہوگئی۔

اگلے روز میں شام کو سر گم تھیٹر سے شو کرکے باہر نکلی تووہ میرے سامنے موجود تھی۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ یوں لگا جیسے کوئی سراب تشنگی کو مہمیز کرنے چلا آیا ہو۔ اُس نے بڑے فریم والا چشمہ لگا رکھا تھا جس نے آنکھوں کی اداسی اور یاسیت کو کم کرکے اُس کے چہرے پر ایک عجیب سا وقار پیدا کردیا تھا۔ اُس نے اپنا نام سحرش بتاتے ہوئے مصافحے کیلئے ہاتھ بڑھایا تومیں تصور کی دنیا سے نکل کر واپس حقیقت کے جہان میں لوٹ آئی۔ میں نے تھوڑا لجاتے ہوئے اُس کا گداز ہاتھ تھاما اورایک نہایت مدھر آواز نے دل کے دروازے پر دستک دی۔ اُس نے چہرے پر مسکان سجاتے ہوئے مجھ سے میرا نام پوچھا۔ میں جو اُس کا کتابی چہرہ پڑھنے کی کوشش کررہی تھی، اچانک حیران ہوکر اُسے دیکھنے لگی۔ اُس نے دوبارہ وہی سوال دہرایا اور میں نے بے اختیار اُسے اپنا نام بتادیا۔ سحرش نے پیچھے دیکھا اور اشارے سے ایک آدمی کو بلایا جس کے کاندھے پر کیمرہ رکھاہواتھا۔ میری حیرت دوچند ہوگئی۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ اُس کے یہاں آنے کا سبب محبت کی لہروں کا پھیلاؤنہیں، بلکہ کوئی خاص کام ہے جو اُسے مجھ سے آن پڑاہے۔ پھر وہ بولتی چلی گئی اور میں ایک ٹک اُس کے پھول کی پتی سے نازک ہونٹوں کو دیکھے گئی۔ اُس نے بتایاکہ وہ ایک فلم ڈائریکٹر ہے جو ہیجڑوں کی زندگی پر ڈاکومینٹری بنانا چاہتی ہے۔ مجھے خوشی بھی ہوئی، دکھ بھی۔ خوشی اِس لیے کہ اُسے مسلسل دیکھتے رہنے کی آرزو پوری ہو رہی تھی اور دکھ اُس لئے کہ میری بے غرض چاہتوں کاپرندہ، ابھی ایک غرض کے نرغے میں تھا۔

اُس رات میں نے کتنے حسین خواب اپنی آنکھوں میں سجائے اور گلا گھونٹ کر اُنہیں ماردیا۔۔۔ایک گڈا پھانسی پر لٹکا ہوا تھا جو میری طرف دیکھ کر ہمکا اور میں نے دوسری جانب منہ پھیر لیا۔۔۔ایک جونک میرے جسم سے لپٹ کر میراخون پی رہی تھی اورمیرے اندر کی عورت دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔۔۔میں ایک مرد کا روپ دھارے، سحرش کے ہونٹ چوم رہی تھی اور ایک کیمرا مین ہماری وڈیو بنا رہا تھا۔۔۔ پھراچانک ”کٹ“ کی آواز آئی اور میری آنکھ لگ گئی۔

اگلے روز علی الصبح سحرش کا فون آیا اوراُس نے بتایاوہ ٹھیک دو بجے تک میرے پاس پہنچ جائے گی۔ میں نے ایک ایک پل گن کر اُس کا انتظار کیا۔ وہ صرف پانچ منٹ لیٹ ہوئی مگر مجھے یوں لگا جیسے صدیاں گزر گئی ہوں۔ وہ نیلے ٹراؤزر اورسبزفراک میں اِتنی حسین دکھائی دے رہی تھی کہ میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اُس کی بلائیں لیں اور اُسے اپنے بیڈروم میں لے گئی۔ وہ وقفے وقفے سے کچھ باتیں اپنی ڈائری میں لکھتی رہی اور میں وقفے وقفے سے اُس کا چہرہ پڑھتی رہی۔ لکھتے ہوئے ایک شریر لٹ اُس کے گالوں کوچھوتی اور میں اُس کی لٹ سے حسد کرنے لگتی۔ کبھی وہ آنکھیں موند کر کچھ سوچتے ہوئے بال پوائنٹ کا آخری سرا چبانے لگتی تو میں اُسے یوں دیکھے جاتی جیسے مرزا نے موت سے پہلے، آخری بار صاحباں کو دیکھا ہوگا۔ شام کے چھ بجے اُس نے ایک لمبی سی انگڑائی لی تو مخمور دھرتی خواب سے بیدار ہوگئی اور جب سحرش مجھے اپنے فلم کے مرکزی کردار کے طورپر منتخب کرکے نکلی توشام کی سرخی، افق کے ماتھے پر ایک خونی بوسہ ثبت کرچکی تھی۔

رات کو تھیٹر سے لوٹنے کے بعدمیں گروجی کے قدموں میں سر رکھ کر اُنہیں اپنی محبت کی داستان سناتی گئی اور وہ پلک جھپکائے بغیر مجھے دیکھتے گئے۔ میں نے اُن کی آنکھوں سے شعلے سے نکلتے دیکھے۔ اُنہوں نے میرے بال پکڑ کر مجھے زمین پر گھسیٹتے ہوئے اِتنا مارا کہ میرا جسم بھی میری روح کی طرح تار تار ہوگیا۔ پھر اچانک وہ مجھ سے لپٹ کر رونے لگے۔ ہم دونوں نے اپنی بے بسی پر خوب آنسو بہائے۔ گروجی نے مجھے بہت سمجھایا کہ میں اُس کا خیال دل سے نکال دوں مگرشایداب یہ ممکن نہ رہا تھا۔

اگلے ہفتے ڈاکومینٹری پر کام شروع ہوگیا۔ میں نے ہیجڑوں کی زندگی کے ایسے ایسے پہلو کھولے جو آج تک کسی کان نے سنے تھے، نہ کسی آنکھ نے دیکھے تھے۔ پہلے شاٹ کے ”اوکے“ ہوتے ہی سحرش دوڑ کر میرے سینے سے چمٹ گئی۔ ایک پل کو تو دل دھڑکنا بھول گیا اور جسم سے جان نکل گئی۔ یہ زندگی تھی یا موت، میں سدا اِسی لمحے میں گرفتار رہنا چاہتی تھی، مگر یہ پل بھی ہر بیتے پل کی طرح گزر گیا اور میں محبت کی فردوسِ بریں سے واپس اپنے وجود کے جہنم میں جاپہنچی۔

فلم کی تکمیل کے دوران کئی بار مجھے لگا کہ وہ میری آنکھوں کی وارفتگی دیکھ کر مضطرب ہوجاتی ہے مگر اِس کے معنی کشید کرنے میں ناکام رہتی ہے؛ کتنی بار میرے ہونٹوں نے اعلانِ محبت کیا مگر وہ سن ہی نہیں سکی؛ کتنی بار میری آنکھوں نے اقرار ِ وفا کیا مگر وہ دیکھ ہی نہیں سکی؛ کتنی بار میری بوجھل سانسوں نے اظہار ِعشق کیا مگر وہ سمجھ ہی نہیں سکی۔

میں نے ڈاکومینٹری کا آخری شاٹ فلم بند کروایا اور سحرش کے پاس چلی آئی۔ اگلے مہینے وہ اِس فلم کو برطانیہ کے کسی میلے میں پیش کرنے جارہی تھی اور اِس کی کامیابی کو لے کر کافی پر امید تھی۔ میں نے باتوں ہی باتوں میں اُس کی آنکھوں کی یاسیت کا سبب پوچھا تو اچانک وہ خاموش ہوگئی۔ اُس نے اپنا مسئلہ بتایا تو میں ہنس پڑی۔ وہ اپنے کسی کلاس فیلو میں انوالو تھی مگر اُس کے بزنس ٹائیکون باپ نے اپنے دوست کے بیٹے کے ساتھ اُ س کا نکاح طے کردیا تھا۔ سحرش نے چہرے پر حیرت اور غصے کے ملے جلے تاثرات سجاتے ہوئے میری ہنسی کا سبب پوچھا تومیں نے اُس کے غم کو ایک معمولی سا حادثہ قراردیا۔ وہ بحث پر اتر آئی اور اچانک میرے دل کا سارا غبار باہر نکل آیا۔ میں نے اُسے بتادیا کہ اُس کی زندگی کے تمام دکھ مل کر بھی میری مجروح محبت کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور شاید کائنات کے تمام دکھ اُس بے بسی کے سامنے ہیچ ہوں جس نے میرے کھوکھلے وجود کو مزید نیم جان کردیا ہے۔ سحرش مجھے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔ پھر ا چانک اُس نے میرے منہ پر تھپڑ جڑدیااور سیٹ چھوڑ کر چلی گئی۔


مائی نیم از سحرش سعید۔ آج میں شادی کرنے جارہی ہوں۔ میرے پاپا بھی بہت اسٹرینج نکلے۔ بچپن میں کبھی ان چاہا کھلونا تک نہیں تھمایا اور آج ایک ان چاہے انسان کا ہاتھ تھما رہے ہیں۔ دس از ربش۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اپنی ساری فرینڈز کو اِنوائٹ کیا ہے۔ ریشم کو بھی کارڈ بھیجا ہے۔ یہ ریشم بھی بڑی اینٹیک چیز ہے۔ ابھی کچھ د ن پہلے اُس کی لائف پر بیسٹ ڈاکومینٹری نے لندن فلم فیسٹیول میں فرسٹ پرائز حاصل کیا بٹ میں اُس کو تھینکس بولنے بھی نہیں جاسکی۔ ایک توشادی کی تیاریاں، اوپر سے آخری ملاقات میں اُس کا ابنارمل بی ہیویر۔ میری توہمت ہی نہیں پڑی۔ اونلی گاڈنوز کہ اُس رات ریشم کو کیا ہواتھا؟ بالکل نارمل انداز میں باتیں کرتے کرتے اچانک مجھے ”آئی لوو یو“ بول بیٹھی۔ نو ڈاؤٹ، وہ لڑکی نہیں ہے مگر لاکھوں لڑکیوں سے زیادہ خوبصورت اور اٹریکٹیو ہے۔ کم از کم مجھ سے تو زیادہ ہی ہے۔ مجھے یوں لگا کہ جیسے اُس کے اندرسے کوئی مینیک مرد بول رہا ہو اور میں ڈر گئی۔ آئی ڈونٹ تھنک کہ وہ آئے گی۔ بٹ اف شی کیم، آئیل بی آ ہیپی بی۔


چاندی کے بجائے سونے کے گھنگھرو باندھے تھے میں نے۔ آج اِتنا ناچی کہ پاؤں لہولہان ہوگئے۔ سحرش مجھے انہماک سے دیکھتی رہی اور جب میں اُسے مبارک باددینے گئی تو مجھ سے لپٹی بھی، مگراب کی بار دل کی دھڑکنیں اعتدال پر رہیں کیونکہ ڈھونڈے سے بھی اُس کی آنکھوں میں وہ اداس سائے نظر نہیں آئے جو اُس کی ذات کا سب سے نمایاں حصہ تھے۔ سچ بتاؤں تو آج پہلی بار مجھے اپنے ہیجڑے پن پر فخر محسوس ہوا ہے کیونکہ میری محبت عام انسانوں کی طرح مختصر اورلمحاتی نہیں بلکہ اِس کی روشنی تاقیامت ہر پیارکرنے والے دل کو منّورکرتی رہے گی۔ فالتو پرزہ آج فالتو نہیں رہا بلکہ دنیا کا سب سے کار آمد اوزار بن گیا ہے۔ میرے وجود کی برفیلی تہہ میں ایک ایسی دراڑ پڑی ہے کہ اندر کاسارا جوالامکھی پھٹ کر باہرنکل آیا ہے اورمیں تکمیل پاکر نوح کی کشتی میں بیٹھے ہوئے بیاسی لوگوں میں سے ایک ہوگئی ہوں، مگر اِس بار میں صرف اکیاسی لوگوں کو زندہ رہنے دوں گی، کیونکہ ایک شخص کی جان لینا ضروری ہے۔

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.