اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں

|تحریر: فضیل اصغر|

2020 ء کے سال کو پوری دنیا کے نام نہاد تجزیہ نگاروں کی جانب سے تباہی و بربادی کا سال قرار دیا گیا۔ ان تمام ”تجزیہ نگاروں“ کی جانب سے موجودہ صورت حال کے ”تجزیے“ کی بنیاد پر مستقبل کا جو تناظر پیش کیا گیا وہ مایوسی سے بھرپور ہے۔ ان ”تجزیہ نگاروں“ میں دائیں بازو کے رجعتی دانشور اور اپنے آپ کو بائیں بازو کا کہلوانے والے لبرل دانشور شامل ہیں۔ ان دونوں میں فرق بس اتنا ہے کہ اول الذکر کی جانب سے قیامت کی آمد کا تناظر پیش کیا گیا (جس کا دوسرے الفاظ میں مطلب دنیا کا خاتمہ ہی ہے) اور بعد الذکر کی جانب سے فسطائیت (Fascism) کا۔ دونوں گروہ اس بات پر متفق ہیں کہ مستقبل تاریک ہے۔

کیا واقعی مستقبل تاریک ہے؟ کیا روشنی کی کوئی کرن واقعی موجود نہیں ہے؟ اور کیا ان دونقطۂ نظر کے علاوہ کوئی تیسرا نقطۂ نظر بھی موجود ہے یا نہیں؟

اگر موجودہ دنیا کو دیکھا جائے تو کوئی اندھا، جاہل اور وحشی ہی ہوگا جو موجودہ دنیا کو روشن کہے گا۔ آج دنیا کے ہر کونے میں محنت کش طبقے کی زندگیاں انتہائی ذلت میں غرق ہیں۔ امریکہ، جہاں اس وقت 3 کروڑ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہیں، سے لے کر لبنان، عراق، یمن، شام اور افغانستان جیسے ممالک جہاں آبادیوں کی آبادیاں سامراجی بمبوں اور راکٹوں سے نیست و نابود ہو چکی ہیں۔ بے روزگاری اپنی انتہاوں پر ہے۔ 29 اپریل 2020 کو انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی جانب سے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ معاشی بحران کے ایک مہینے بعد غیر رسمی شعبے سے تعلق رکھنے والے (ٹھیلوں والے وغیرہ) تقریبا 1 ارب 60 کروڑ محنت کش اپنی آمدن کے 60 فیصد سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ اسی طرح لاک ڈاون کے نتیجے میں کئی کاروبار سرے سے ختم ہو گئے ہیں۔ لوگوں کی تھوڑی بہت بچتیں ہوا میں اڑ گئی ہیں۔ ابھی تک ساڑھے 28 لاکھ سے زیادہ لوگ کورونا وائرس کی وجہ سے مارے جا چکے ہیں اور ابھی لاکھوں کی جانوں کو خطرہ ہے۔ غربت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ لاک ڈاون کے نتیجے میں خواتین پر جبر میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور خواتین کی آج تک کی حاصل کی گئی تمام حاصلات ہوا میں اڑتی نظر آ رہی ہیں۔نفسیاتی بیماریاں اپنے عروج پر ہیں۔ کروڑوں محنت کشوں کے بچوں کی بمشکل جاری تعلیم کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ پہلے سے موجود نوکریاں تیزی سے ختم ہو رہی ہیں اور نوجوانوں کیلئے مستقبل میں انکے دروازے مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔ لوگوں کے پاس دو وقت کی روٹی پوری کرنے، علاج کرانے اور گھروں کے کرائے دینے کے پیسے موجود نہیں ہیں اور کہیں سے قرضے بھی نہیں مل رہے۔ محنت کشوں کے بچے راتوں کو بھوک سے بلکتے ہوئے سوتے ہیں، جوان اولاد ماں باپ کی حالت دیکھ کر خاموشی کیساتھ اپنی تمام خواہشات کا گلہ گھونٹے جا رہی ہے۔ جرائم سمیت تمام طرح کی سماجی برائیوں میں بہت بڑا اضافہ ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے پورا سیارہ تباہی کے دہانے پر پہنچا ہوا ہے۔ یہ ہے آج کی دنیا جو یقینا جہنم سے کم نہیں۔ اسے کون تاریک نہیں کہے گا! مگر یہ نسل انسانی کا ناگزیر مستقبل نہیں ہے!

ایک تیسرا نقطۂ نظر بھی موجود ہے جو نہ صرف اس تباہی و بربادی کی سائنسی وجوہات کو بیان کرتا ہے بلکہ اس کا سائنسی حل بھی پیش کرتا ہے۔ یعنی کہ اس تیسرے نقطۂ نظر کے مطابق روشن مستقبل کے واضح امکانات موجود ہیں۔ یہ تیسرا نقطۂ نظر ’مارکسزم (Marxism)‘ ہے۔ اس کے مطابق یہ تباہی و بربادی نہ تو خدا کا عذاب ہے اور نہ ہی انسانی لالچ کی پیداوار، بلکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی دین ہے اور اس نظام کے خاتمے اور ایک منصوبہ بند معیشت یعنی سوشلزم کے قیام کیساتھ نہ صرف اس تباہی و بربادی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے بلکہ موجودہ وسائل کو انسانوں کی ضرورتوں کو بنیاد بناتے ہوئے منصوبہ بندی کے تحت استعمال کر کے ہر انسان کو نہ صرف تمام سہولیات مہیا کی جا سکتی ہی بلکہ پورے سماج کو بے تحاشہ ترقی دی جا سکتی۔

اس نقطۂ نظر کے مطابق سماج میں دو طبقے موجود ہیں، محنت کش طبقہ اور حکمران طبقہ۔ محنت کش طبقہ سماج کی ساری دولت پیدا کرتا ہے اور حکمران طبقہ اس دولت پر عیاشی کرتا ہے اور محنت کش طبقے کو اسکی محنت کے بدلے میں بہت کم اجرت پر زندہ رکھ کر اس سے اشیاء پیدا کرواتا ہے اور پھر انہیں منڈی میں بیچ کر منافع کماتا ہے اور اپنے سرمائے کو بڑھاتا جاتا ہے۔ اسکی ایک واضح مثال کچھ عرصہ پہلے آکسفیم (Oxfam) کی شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں دیکھی جاسکتی ہے جس میں یہ بتایا گیا کہ ایک فیصد سرمایہ دار طبقے کے پاس 7 ارب انسانوں سے دو گنا زیادہ دولت موجود ہے۔ اسی طرح کورونا وباء کے نتیجے میں جہاں ایک طرف اربوں لوگ موت اور بھوک کے سائے تلے زندہ ہیں وہیں دوسری طرف ایمازون کمپنی کے مالک جیف بیزوس اور ٹیسلا کمپنی کے مالک ایلون مسک کی دولت میں 217 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے ان دو طبقات کے درمیان لڑائی موجود ہے، ایک کا فائدہ دوسرے کا نقصان ہے، لہٰذا یہ دونوں طبقات آپس میں وقتا فوقتا لڑتے رہتے ہیں جسکی مثالیں ہمیں مزدوروں اور کسانوں کے احتجاجوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مارکسزم کے مطابق آج تک کی انسانی تہذیب کی تاریخ ان دو طبقات کی آپس میں لڑائی کی تاریخ ہے۔ اسی لڑائی کے نتیجے میں سماجی ارتقا ہوا ہے اور کئی نظام آئے اور پھر ختم ہوگئے اور انکی جگہ نئے نظاموں نے لے لی جن میں غلام داری، جاگیرداری اور سرمایہ داری شامل ہیں۔

عظیم انقلابی کارل مارکس نے کہا تھا کہ جب بھی کوئی نظام سماج کو ترقی دینے کے رستے میں رکاوٹ بننا شروع ہو جائے تو اسکے خلاف بغاوتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ آج اگر پوری دنیا پر نظر دوڑائی جائے تو واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکہ، جہاں ٹرمپ کو صدارتی محل سے دم دبا کر بھاگنا پڑا جب عوام نے اسکا گھیراؤ کر لیا، سے لے کر ایکواڈور، جہاں عوام نے پارلیمنٹ پر قبضہ کر لیا، سمیت بے شمار ممالک جن میں لبنان، عراق، چلی، ہیٹی، ایران، فرانس، بیلاروس، سوڈان وغیرہ شامل ہیں، میں محنت کش طبقہ آج اس نظام کے خلاف سڑکوں پر ہے۔ آج یہ طبقاتی جدوجہد کوئی اندھیرے میں روشنی کی چھوٹی سی کرن نہیں بلکہ ایک نئی صبح میں سورج کی کرن ہے۔ اگر ان بنیادوں پر سماج کا تجزیہ کیا جائے تو مستقبل تاریک نہیں بلکہ روشنی کے لامحدود امکانات سے بھرپور ہے۔

یقینا ان امکانات کو حقیقت میں بدلنے کیلئے اس سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنا ہوگا۔ اور یہ نظام اپنے آپ ختم نہیں ہو جائے گا، یہ لاش جتنا عرصہ پڑی رہے گی مزید گلتی ہی جائے گی اور اپنی بدبو پھیلاتی جائے گی۔ جتنا عرصہ یہ نظام رہے گا تباہی و بربادی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ لہٰذا یہ یاد رہے کہ اگر ان امکانات کو حقیقت میں نہ بدلا گیا تو یقینا نسل انسانی کے خاتمے کے خطرات بھی موجود ہیں۔ اس عالمی نظام کو ختم کرنے کیلئے شعوری جدوجہد درکار ہے۔ ایک ایسی عالمی پارٹی کی ضرورت ہے جو سائنسی بنیادوں پر موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے مستقبل کا تناظر پیش کرے اور دنیا بھر کے محنت کش طبقے کو منظم کرتے ہوئے اس نظام کے خاتمے کی جدوجہد کو تیز کرے اور سوشلزم کیلئے راہ ہموار کرے۔ مستقبل میں ہمارے پاس دو ہی رستے ہیں سوشلزم یا نسل انسانی کا خاتمہ۔ آج تک انسان جدوجہد کے نتیجے میں ہی زندہ رہا ہے اور آگے بڑھا ہے، اگر وہ مستقبل کے خوف میں گھِر کر مایوسی میں چلا جاتا تو شاید آج تک فنا ہو چکا ہوتا۔ ہمیں بھی آج مایوسی اور اسے پھیلانے والوں کو رد کرتے ہوئے جدوجہد اور جدوجہد کرنے والوں کیساتھ کھڑا ہونا ہوگا!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.