افسانہ: کرونا شرونا

|تحریر: ناصرہ وائیں |

بیگم!! کیا ہو رہا ہے؟ بھئی جلدی سے چائے لے آؤ۔ یاسر نے باتھ روم سے نکلنے کے بعد کپڑے بدلتے ہوئے آواز دی۔ اس نے جلدی سے کپڑے پہنے اور ڈائننگ ٹیبل کی جانب بڑھا۔ لیکن میز پر ابھی رات کے جھوٹے برتن پڑے ہوئے تھے۔ ایک تو بیگم بہت ہی سست ہے۔ وہ خود ہی سیدھا کچن کی طرف آ گیا۔ اور دو کپ چائے بنا ڈالی۔ پھر ندا کو جگانے جا پہنچا۔ اٹھو! صبح کے آٹھ بج چکے ہیں۔ اس نے ہاتھ سے اس کا ماتھا چھوتے ہوئے بڑی پریشانی سے پوچھا، جانوُ! آنکھیں تو کھولو! میں تمہارے لیے چائے بنا کے لایا ہوں۔ اور اب جلدی سے مجھے ناشتہ بنا دو۔ یار میں لیٹ ہو رہا ہوں۔ لیکن جواب ندارد۔ اٹھ بھی جاؤ یا پھر میں خالی پیٹ ہی چلا جاؤں؟ لیکن ندا دل ہی دل میں کچھ بول رہی تھی، جو ظاہر ہے یاسر کو سنائی نہیں دے رہا تھا۔ کچھ دیر کی منت سماجت کے بعد اس نے چائے کا کپ اٹھا لیا اور اپنے ساتھ اس کے لیے بھی ناشتہ بنا کر رکھ دیا پھر اپنے کام پر چلا گیا۔ جانے سے پہلے اس نے اپنے ہاتھوں پر دستانے چڑھا لیے اور منہ پر نیا ماسک بھی لگا لیا۔

ندا چپ چاپ پڑی گیلی لکڑی کی طرح سلگتی رہی۔ جب وہ چلا گیا تو اٹھی، چائے کو مائیکرو ویو اوون میں گرم کیا، کپڑے بدلے اور ناشتہ کرنے کے بعد پاکستان فون گھمایا۔ اس کی ماں نے فون اٹھاتے ہی رونا دھونا شروع کر دیا۔ ماں رو کیوں رہی ہو؟ کیا ہوا؟ بھیا تو ٹھیک ہے نا! ہاں سب ٹھیک ہے۔ ساری دنیا ہی ٹھیک ہے بس تمہارے بیلجیئم میں ہی یہ وبا پھیلی ہوئی ہے؟ تمہارا ہی شوہر دنیا کا سب سے سمجھ دار انسان ہے، اُسی کو سب پتا ہے باقی سب لوگ جاہل ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ ہی تم کو روک رہا ہو گا۔ ماں نے بڑے یقین سے پوچھا۔ ندا کو نہ چاہتے ہوئے بھی ہاں کہنا پڑا۔ ماں! یاسر ڈاکٹر ہیں اور اس کے ہاسپٹل میں ہر روز کرونا وائرس کا کوئی نہ کوئی مریض آ ہی جاتا ہے۔ اس لیے گھبرا رہے ہیں۔ تجھے وہ پاکستان آنے سے روک رہا ہے اور خود مریضوں کا علاج کر رہا ہے۔ تو اسے کیوں نہیں کہہ دیتی کہ وہ بھی ہاسپٹل نہ جایا کرے۔ ورنہ توُ بھی پاکستان جائے گی۔

ہاں ماں میں آج اس سے دو ٹوک بات کروں گی۔ میں ہر حال میں اسی تاریخ کو پاکستان آ جاؤں گی جس تاریخ کو میرا ٹکٹ بُک ہوا ہے۔ اچھا ماں اب میں رکھتی ہوں۔ آپ کو بھی کام کرنے ہوں گے۔ ہاں کرنے تو ہیں لیکن تم ضرور بات کرنا یاسر سے۔ بیٹی، خاوند کی ہر بات نہیں مانا کرتے۔ میرا دل کتنا اداس ہو رہا ہے۔ پچھلے سال بھی اس نے جنگ کا سُن کر تجھے پاکستان نہیں آنے دیا تھا اور اب اس سال اس کلمُوہے وائرس کے ڈر سے وہ چاہتا ہے کہ ہم مل نہ سکیں۔ اللہ نے چاہا تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔ ہمارے محلے میں ساری رات کوئی نہ کوئی محلے دار مسلسل اذانیں دیتا ہے۔ اب تو سب نے باری بھی لگا لی ہے اور ساری رات اذانیں دی جاتی ہیں۔ کرونا جیسی بھی بدروح ہو، جس کسی کی بھی سازش ہو اہل ایمان کو کچھ نہیں ہو سکتا۔ وہ ہماری پڑوسن زبیدہ کہہ رہی تھی کہ کوئی کرونا شرونا نہیں ہے خواہ مخواہ لوگوں کو ڈرا رہے ہیں۔ ہم تو صرف خدا سے ڈرتے ہیں۔ کسی کرونے شرونے سے نہیں۔ ماں اب بہت لیٹ ہو گیا ہے کل سے منہ پھلائے بیٹھی ہوں گھر سارا الٹ پلٹ پڑا ہے۔ رات کو بات کروں گی۔ ہاں بیٹی، ویسے تو بھی باہر مت نکلنا۔ بس مجھ سے ملنے ضرور آ جانا۔

رات کو یاسر گھر نہیں آیا۔ اور اس نے کوئی فون بھی نہیں کیا۔ پہلے تو ندا نے سوچا اگر وہ فون کرے گی تو وہ سمجھے گا کہ میں ناراض نہیں ہوں۔ ٹی وی ڈرامہ دیکھتی رہی۔ پھر کزنوں اور دوستوں سے چیٹ کرتی رہی۔ جب پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے تو کھانے کا خیال آیا۔ وقت دیکھا تو شام کے چار بج رہے تھے۔ بسکٹ وغیرہ ڈھونڈ کر اس سے پیٹ بھرتے ہوئے سوچنے لگی، آج رات بھوکا سونا پڑے گا تو پتا چلے گا۔ میں بھی اس کو مزا چکھا کے ہی چھوڑوں گی۔

بہرحال چند ہی دن بعد وہ ایئر پورٹ پر کھڑی یاسر کو خدا حافظ کہہ رہی تھی۔ وہ بہت خوش تھی کیوں کہ کئی سال بعد وطن واپس جا رہی تھی۔ اپنی ماں کے پاس، اپنے بھائی کے پاس، اپنی دوستوں اور کزنوں کے پاس۔ احمد اس کا اکلوتا بھائی تھا جس کی شادی تھی۔ ماں کا بھی اصرار تھا کہ وہ اپنے بھائی کی خوشیوں میں ضرور شامل ہو۔ لیکن اس کی فلائٹ جب پاکستان پہنچی تو پاکستان کی ایوی ایشن نے جہاز کو اترنے کی اجازت نہیں دی اور جہاز واپس دبئی چلا گیا۔ مسافروں کو بتایا گیا کہ وائرس کی وجہ سے پاکستان میں کسی بھی فلائٹ کو لینڈ نہیں کرنے دیا جا رہا۔

لیکن میری ماں تو کہہ رہی ہے کہ یہاں پاکستان میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ اس نے ماں کو بتایا کہ فلائٹ کو اترنے کی اجازت ہی نہیں مل سکی۔ تو تم اس وقت کہاں ہو؟ ماں میں دبئی میں ہوں۔ فلائٹ واپس آ گئی ہے۔ اب تو بیلجئم نے بھی پروازوں پر پابندی لگا دی ہے۔ اب میں کیا کروں؟ بیٹا دعا کر اور اللہ پر بھروسہ رکھ بس۔ کچھ نہیں ہوتا۔ میں تیرے کزن سے کہتی ہوں پتا کر دے وہ ان معاملات کو جانتا ہے۔

کچھ دیر بعد اس کی ماں کا دوبارہ فون آ گیا۔ تمہارے کزن نے پتا کروایا ہے۔ جدے اور دبئی سے عمرے والوں کو لے کر سپیشل پی آئی اے کی فلائٹیں آ رہی ہیں۔ ان میں سے کسی فلائٹ پر آ جاؤ۔

اس نے جب یاسر کو بتایا کہ فلائٹ ان مسافروں کو لے کر واپس جا رہی ہے کیوں کہ دبئی والوں نے اپنا ایئرپورٹ بھی بند کر دیا ہے۔ سنتے ہی یاسر نے کہا کہ تم فوراً واپس آ جاؤ۔ اپنا ٹکٹ بنوا لو۔ بلکہ میں تمہارے واپسی کے ٹکٹ کا انتظام کر دیتا ہوں۔ اور ہاں اپنا ماسک بدل لو۔ ہاتھ دھو کر لگانا۔ اور اپنے ہاتھ چہرے کو نہ لگانا اور لوگوں سے چھ فٹ کا فاصلہ رکھنا۔ ہاں اپنے دستانے ضرور پہنے رکھنا۔ اب رکھتا ہوں۔

اس نے ماسک تو بدلا لیکن ہاتھ نہیں دھوئے اور عمرے سے آنے والی ایک پاکستانی مسافر عورت سے ہاتھ ملا لیا جو یہ سُن کر کے وہ شادی کے بعد پہلی بار پاکستان جا رہی ہے بڑے تپاک سے اس سے گلے بھی ملی۔ اسی دوران اس کی ماں کا فون آ گیا۔ دیکھو! تم واپس ہرگز مت جانا۔ وہ خواہ مخواہ کے بہانے بنا رہا ہے۔ ابھی پاکستان میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ اور ابھی کوئی ایک مریض بھی سامنے نہیں آیا۔ لوگ خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں۔ اللہ یقینا سب کو محفوظ رکھے گا۔ اب تو اتنے بڑے مولوی نے دعا بھی کروا دی ہے۔ مولوی صاحب نے اپنی دعا میں رو رو کر اللہ تعالیٰ سے فریاد کی ہے کہ پاکستان میں لوگوں کو اس بلا سے محفوظ رکھے۔ دعا میں خاص طور پر بڑے صاحب اور وزیر اعظم کی حفاظت کی دعا مانگی ہے۔ اوپر سے ساری رات اذانیں دی جا رہی ہیں۔ ہمارے دل تو بالکل مطمئن ہیں۔ بس اللہ پر یقین رکھو۔ اسی نے بچانا ہے۔ تم یاسر کو مت بتانا اور واپسی کے جہاز میں ہرگز مت بیٹھنا۔ پی آئی اے سے سیدھے پاکستان آ جاؤ۔ اچھا ابھی تو میں بازار جا رہی ہوں۔ سنار نے بلوایا ہے۔ رکھتی ہوں۔ اللہ حافظ۔
وہ اب دانتوں سے ناخن کاٹتے ہوئے مسلسل سوچ میں پڑی تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ کچھ ہی دیر بعد ساتھ بیٹھی ایک زیارتوں سے آنے والی عورت کے کھانسنے کی آواز سن کر اس کو یاسر کی بات کا خیال آیا۔ اس نے بیگ سے سینے ٹائزر نکالا ہاتھ صاف کیے اور دستانے پہن لیے۔

دیکھو! میں نے تمہارا ٹکٹ بُک کروا دیا ہے اصل میں میرا کریڈٹ کارڈ نہیں مل رہا تھا۔ میں نے اپنی ایک کولیگ کے کارڈ سے ٹکٹ بُک کروایا ہے۔ آدھے گھنٹے تک دبئی ایئر کی فلائٹ واپس آ رہی ہے۔ اس نے اپنے پرس میں دیکھا تو یاسر کا کریڈٹ کارڈ اس کے پرس میں تھا۔ واپس جانا چاہیے یا پاکستان۔۔۔؟ وہ یہاں وہاں ٹہل رہی تھی، سوچ میں ڈوب کر۔ اس کو خیال آیا کہ اگر پاکستان میں اذانیں دی جا رہی ہیں اور مولوی صاحب نے دعا بھی کروا دی ہے تو یقینا وہاں کرونا نہیں آ سکے گا۔

تھکن اور پریشانی سے بدحال انہی سوچوں میں گُم اس کو نیند آ گئی۔ جب تک اس کو ہوش آیا تو بیلجئم والی تو ایک طرف پاکستان والی فلائٹ بھی اُڑ چکی تھی۔ اب اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اس نے یاسر کو بھی کچھ نہیں بتایا اور خاموشی سے سوچتی رہی۔ پھر وہ اٹھی اور ساتھ بیٹھی ہوئی زیارتوں سے آنے والی اسی پاکستانی عورت سے پوچھا کہ اس کی فلائٹ مس ہو گئی ہے اب وہ کیا کرے۔ تو اس نے بتایا کہ پی آئی اے کی ایک اور فلائٹ پاکستان جا رہی ہے۔ اس نے ماں کو بتایا تو وہ بہت خوش ہوئی۔ اس نے کہا کہ تم تو بڑی چالاک ہو گئی ہو۔ لیکن ندا نے کہا نہیں ماں میں تو بیلجئم جا رہی تھی لیکن مجھے نیند آ گئی جس کی وجہ سے وہاں کی فلائٹ مجھ سے مس ہو گئی۔ ماں نے کہا کہ اللہ جو بھی کرتا ہے، بھلے کے لیے ہی کرتا ہے۔ اس کی یہی مرضی ہے کہ تم پاکستان آؤ۔ کوئی بات نہیں تم یاسر کو بتا دو یہ بات۔

اس نے جب یاسر کو یہ بات بتائی تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ نجانے یہ عورت کیا کرے گی۔ اس کو معلوم ہی نہیں کہ کتنا خطرہ ہے۔ میں دیکھتا ہوں اگر کوئی اور فلائٹ آ رہی ہو تو۔ ایک گھنٹے کی بھاگ دوڑ کے بعد اس نے بتایا کہ ایئر فرانس کا ایک جہاز فرانس آ رہا ہے۔ اس کا ٹکٹ میں نے بک کروا دیا ہے۔ تم مجھے فلائٹ میں بیٹھ کر بتا دینا میں ایئرپورٹ تم کو لینے پہنچ جاؤں گا۔

اگلی فلائٹ دو گھنٹے بعد پیرس جانے والی تھی، اور اب ایک گھنٹہ گزر چکا تھا، ندا ابھی تک دستانے والی انگلی منہ میں ڈالے بیٹھی تھی۔ ایئرپورٹ سے فلائٹ کے لیے اعلانات ہو رہے تھے۔ اب وہ ادھر ادھر ٹہل رہی تھی۔ تبھی اس کی ماں کا فون آ گیا کہ پی آئی اے کی فلائٹ میں اس کے بھائی نے اس کا ٹکٹ بُک کروا دیا ہے، اور چار گھنٹے بعد اس کی لاہور کو فلائٹ ہے۔

ماں کا فون بند ہونے کے بعد یاسر کا فون آ گیا۔ پیچھے نرسوں کی اور ہسپتال کے سٹاف کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ہاں میں بس فلائٹ میں بیٹھنے ہی والی ہوں۔ اچھا میں وارڈ میں جا رہا ہوں۔ اپنا دھیان رکھنا اور جو میں نے بتایا ہے اس پر عمل کرنا۔

چار گھنٹے ہلکان ہونے کے بعد جب وہ جہاز میں چڑھنے کے لیے گئی تو پتا چلا کہ وہ فلائٹ بھی دس گھنٹے لیٹ ہو گئی ہے۔ پھر دس گھنٹے بعد دوبارہ اعلان ہوا کہ فلائٹ دس مزید گھنٹے تاخیر سے آئے گی۔ اسی وقت اس نے ماں کو فون کیا۔ ماں نے پوچھا کہ کب آؤ گی ایئرپورٹ سے باہر ہم لوگ ایئرپورٹ پر کھڑے ہیں۔ ماں میں تو ابھی دبئی میں ہوں۔ اس نے روہانسی آواز میں کہا۔ فلائٹ دس گھنٹے بعد آئے گی۔ کیا؟ بتایا کیوں نہیں؟ وہاں بارات تیار کھڑی ہے اور دولہا یہاں تم کو لینے پہنچا ہوا ہے۔

تمہارا بھائی کہہ رہا تھا کہ وہ تمہارے بغیر نہیں جائے گا شادی کرنے۔

ہم لوگ ابھی واپس گھر جا رہے ہیں، میں سفینہ کی ماں کو بتا دیتی ہوں کہ جب ندا آئے گی تو ہی شادی ہو گی۔

دوسری طرف لڑکی کے گھر والوں نے اس بات کو اپنی بے عزتی کے طور پر لیا۔ سوچ بچار کے بعد لڑکی کا نکاح اس کے چچا کے بیٹے سے کروا دیا اور لڑکے والوں کو اطلاع دیے بغیر ہی مہمانوں کو کھانا شانا کھلا کے لڑکی کی رخصتی کر دی۔

اگلے دن جب وہ لاہور ایئرپورٹ پہنچی تو اس کا بھائی شادی کی شیروانی پہنے اس کو لینے آیا۔ اور لے کر سیدھے شادی ہال پہنچ گیا۔ تمام ہال سیل کر دیے گئے ہیں۔ ملازم نے بتایا۔ یار کل میری شادی تھی یہیں جو کہ ہم نے ایک دن آگے کر دی تھی۔ ملازم نے کہا خوچہ کیا بات کرتی اے۔ کل شادی تھا تو آج کیا لینے آیا ہے۔ کل وہ شادی او گیا۔ دلہن اپنے چچا زاد کے ساتھ شادی بنا کے چلا گیا۔ اس نے بہن کو ساتھ لیا اور تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ دونوں کھانستے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہو رہے تھے۔

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.