چترال: چار طلبہ کی امتحان میں ناکامی پرخود کشی، پی وائی اے کا اعلامیہ

|تحریر: پروگریسو یو تھ الائنس|

پروگریسو یوتھ الائنس چترال میں چار طلبہ کی امتحان پر ناکامی کے بعد خودکشی پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتی ہے اور حکمرانوں کو ان خود کشیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کی عوام دشمن پالیسیوں کی شدید مذمت کرتی ہے۔
7اگست 2018ء بروز منگل، چترال کے تین مختلف علاقوں میں انٹر کا رزلٹ آنے کے بعد کم نمبروں کی وجہ سے تین طالب علموں نے خود کشی کرنے کی کوشش کی۔ ان تینوں میں دو لڑکیاں اور ایک لڑکا شامل ہے۔چترال کے علاقے ریچ سے تعلق رکھنے والی لڑکی نے دریا میں چھلانگ لگا کر خود کشی کی۔ اس لڑکی کے والدین کا کہنا تھا یہ لڑکی بہت زیادہ پڑھتی تھی اور امتحانات کے بعد کافی مایوس اور پریشان رہتی تھی۔ اسی طرح دوسری لڑکی جسکا تعلق چترال کے علاقے گرم چشمہ سے تھا ،نے بھی دریا میں چھلانگ لگا کر خود کشی کی جسکی لاش ابھی تک برآمد نہیں کی جاسکی اور تلاش جاری ہے۔ انکے علاوہ چترال کے علاقے وادی لوٹ کوہ سے تعقل رکھنے والے ایک نوجوان نے بندوق کو اپنی تھوڑی کے نیچے رکھ کر گولی چلا دی۔بہر حال کسی طرح یہ لڑکا بچ گیا اور اسے فورا قریبی ہسپتال لے جایا گیا۔ فالوقت وہ انتہائی نازک حالت میں پشاور منتقل کر دیا گیا ہے۔ان افسوس ناک واقعات کے دو دن بعد چترال سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور نوجوان نے خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی۔ اس نوجوان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس نے خود کشی اس لیے کی کیونکہ کہ وہ کم نمبروں کی وجہ سے وہ بیرونی سکالر شپ سے محروم ہو گیا تھا۔جبکہ اسکے دوسرے دو دوستوں کے نمبر سکالر شپ کیلئے پورے تھے۔
پروگریسو یوتھ الائنس ان چاروں واقعات کی ذمہ دارلالچ اور مقابلہ بازی پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام اور اسکی رکھوالی کرنے والی حکمران طبقے کی نمائندہ ریاست کو ٹھہراتی ہے۔خود کشی کا الزام ہمیشہ طالب علم پر ہی ڈالا جاتا ہے اور یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اور طالب علم بھی تو ہیں انہوں نے خود کشی کیوں نہیں کی؟ یعنی کہ خود کشی کرنا محض اس طالب علم کی غلطی تھی اور سماج کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ہم سمجھتے ہیں کہ اپنی جان لے لینے جیسے سخت فیصلے کے پیچھے سماجی محرکات کار فرما ہوتے ہیں۔طلبا کے مابین شدید ترین مقابلہ بازی،منڈی میں نوکریوں کی عدم دستیابی، مہنگی ترین تعلیم، اساتذہ کا دباو ، فرسودہ نظام تعلیم اور سماجی دباؤ یہ وہ محرکات ہیں جو کسی بھی طالب علم کو خود کشی کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ 
موجودہ سرمایہ دارانہ نظام نے انسانوں کے درمیان شدید ترین مقابلہ بازی پیدا کر دی ہے۔ ہر انسان دوسرے سے لاتعلق ہوچکا ہے اور زندہ رہنے کیلئے پیسہ کمانے کی ایک اندھی دوڑ میں لگاہوا ہے۔ اس گھٹیا سماج میں اس دوڑ کا فاتح وہی قرار پاتا ہے جس کے پاس پیسہ ہوتا ہے۔ ایک ایسے سماج میں جہاں خواہشات، رشتے ناطے،جذبات،مقاصد، کامیابی اور اچھائی کا معیار سب کچھ پیسے کی بنیاد پر ہو وہاں خود کشی محض ذاتی فعل نہیں رہ جاتا ۔ اسی طرح دوسری جانب پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں جہاں زندہ رہنا بھی ایک ہنر ہو وہاں اس طرح کے واقعات کو معمول کا حصہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں طالب علموں کے خود کشی کے واقعات بے شمار ہیں جن کے پیچھے عمومی طور پر بے روزگاری یا روزگار نہ ملنے کا خوف ہی کار فرما ہوتا ہے۔ 
پاکستان میں موجود فرسودہ تعلیمی نظام کوموجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے بغیر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ مقابلہ بازی،بے روزگاری،مہنگی تعلیم، سماجی دباؤ وغیرہ اس پیسے کے نظام (سرمایہ داری) کی پیداوار ہیں اورجب تک انکی بنیاد کو ختم نہیں کیا جاتا انکو ختم کرنے کی کوئی بھی کوشش بے کار ہی ہوگی اور خود کشیوں سے چھٹکارا بھی ممکن نہیں بلکہ ان میں مزید اضافہ ہوگا۔ 
صرف منصوبہ بند معیشت (سوشلزم)کے تحت ہی اس فرسودہ نظام تعلیم اور دیگر تمام سماجی گندگی (مقابلہ بازی وغیرہ)کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ سوشلزم میں ریاست مزدوروں اور کسانوں (عام لوگوں) کے تسلط میں ہوتی ہے اور عام لوگوں کیلئے فیصلے کرتی ہے۔ 

بیمار نظام اور خودکشیوں کا ناسور!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.