کوئٹہ: ’’ادب اور سیاست‘‘ کے عنوان پر سیشن اور مشاعرے کا انعقاد

|رپورٹ: خالد مندوخیل|

پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کی طرف سے 23 مارچ کو بلوچی اکیڈمی میں ’’ادب اور سیاست‘‘ کے عنوان پر ایک سیشن اور اسکے ساتھ ساتھ ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام مجموعی طور پر دو سیشنز پر مشتمل تھا جس میں پہلے سیشن یعنی ”ادب اور سیاست” پر ہمارے کراچی سے آئے ہوئے ساتھی کامریڈ پارس جان نے تفصیلی بحث کی جبکہ دوسرے سیشن میں مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں اردو، پشتو، ہزارگی، بلوچی اور براہوی میں شعراء نے اپنی خوبصورت انقلابی اور رومانوی شاعری سنائی۔
پروگرام کو باقاعدہ طور پر اس دن یعنی 23 مارچ کو برصغیر کے عظیم سوشلسٹ انقلابی بھگت سنگھ اور اسکے ساتھیوں کے نام کیا گیا جنہوں نے برطانوی سامراج اور برصغیر کے خونی بٹوارے کے خلاف سوشلسٹ جدوجہد کے دوران اسی دن سولی پر چڑھ کر جام شہادت نوش کیا تھا۔

پارس جان نے سب سے پہلے کوئٹہ کی ٹیم کو روایت سے ہٹ کر ایک ایسا کامیاب پروگرام کرنے پر مبارکباد دی ۔ ان کا کہنا تھاکہ حکمرانوں کی طرف سے مسلط کی گئی مظلوم عوام کے درمیان مصنوعی تقسیم کے برعکس بالخصوص مختلف زبانوں کے شعراء اور دیگر لوگوں کی اس پروگرام میں شرکت باعث تحسین ہے۔

’’ادب اور سیاست‘‘ پر بحث کرتے ہوئے کامریڈ پارس جان نے کہا کہ ہم ایک تبدیل شدہ عہد میں رہ رہے ہیں جہاں عالمی سطح پر سارے سیاسی اور سماجی ڈھانچے ٹوٹ چکے ہیں جبکہ نئی سماجی بنیادیں وجود میں نہیں آئی ہیں۔ اس کی وجہ سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے جو کہ سیاست اور سماج کے ساتھ ساتھ ادب اور ثقافت میں بھی اپنا اظہار کررہا ہے۔
اس خلاء میں امریکی سامراج نے نیو لبرلزم کے ذریعے جو ثقافت مسلط کی اس نے باقی ماندہ انسانی ثقافت کو تاراج کیا۔ یہاں خوراک سے لیکر ادب، شاعری اور موسیکی تک سب کو خرید و فروخت کی اشیاء بناکر یا پیسہ کمانے کے باقاعدہ پیشے کے طور پر ٹھہرا کر برباد کردیا۔ جہاں یہ آرٹ پھر آرٹ کی بنیادی تعریف سے گرتا ہو نظر آیا۔ گرچہ کچھ ادیبوں میں مزاحمت موجود رہی ہے لیکن عمومی طور پر صحافت سے لیکر معیشت اور سیاست کے زوال کے ساتھ ساتھ آرٹ بھی کمانے کا زریعہ بن کر زوال پزیر ہوچکا ہے۔ اس غلبے کے اندر جہاں نجکاری اور مہنگائی کیخلاف جدوجہد ضروری ہے وہاں ہمیں ادب اور ثقافت کی بقا کی جنگ بھی لڑنی پڑیگی جو کہ دراصل انسانی احساسات کی بقاء کی جنگ ہے۔

ادب اور سیاست کے تعلق پر پارس جان نے کہا کہ آجکل ادیبوں اور سیاسی کارکنوں کو بیک وقت ایک غلط فہمی ہے کہ ادب اور سیاست دو مختلف اور لاتعلق موضوعات ہیں۔ جبکہ آرٹ اور سماج یا سیاست کا اتنا ہی پرانا تعلق ہے جتنی پرانی انسانی تہذیب ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ واقعی ہم آج کے موجودہ ضمیر فروشی پر مبنی سیاست سے ادب کو جوڑنے کی کوشش نہیں کر رہے جوکہ سماج سے کٹ چکی ہے جس کی وجہ سے ادب سیاست سے کٹ چکا ہے۔ پچھلی ایک نسل سے سیاست سے نظریات نکل چکے ہیں۔ اس لیے ادب ایک لازوال انسانی نظریے کے بجائے ’کیتھارسز‘ یا فوری نتیجہ دینے والی کوئی شیبن کر رہ گئی ہے۔ لوگوں کو ایسا ادب چاہیے جوفوراََانہیں مطمئین کرے تاکہ وہ واپس اپنے کام پر جا سکیں۔ 

سرمایہ داری نے انسانی زندگی کو ایسی دوڑ میں تبدیل کر دیا ہے جس میں ادب اور میوسیکی تو درکنار، لوگوں کے پاس کھانا کھانے کاوقت نہیں ہیں اور وہ مل بیٹھ کرکھانا کھانے اور کھانے پر بات چیت کرنے اور ایک دوسرے کا حال احوال لینے کے بجائے چلتے پھرتے ’فاسٹ فوڈ‘ کھارہے ہیں۔ 

آخر میں پارس جان نے ادب کی تاریخ پر بھی تفصیلی بحث کی کہ ادب انسانی زندگی کی بنیادی ضروریات اور استعمال کیساتھ وجود میں آیا۔ اس لیے آرٹ اپنی بقا اور آزادی کی جدوجہد بھی بذات خود نہیں لڑ سکتا بلکہ اادب کو دوبارہ زندگی اور سیاست سے جوڑ کر اس ذاتی ملکیت پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کے ذریعے ہی اسکو اپنے بلند مقام پر پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس بحث کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور آخر میں پارس جان نے مختلف سوالات کے جوابات دیے۔ اس طرح پہلے سیشن کا اختتام ہوا۔

دوسرا سیشن ’مشاعرے‘ پر مشتمل تھا۔جس میں بلوچستان سے کامریڈ ثانیہ خان،کامریڈ حضرت عمر اور علمدار سٹیج کی ذمہ داری سنمبھال رہے تھے۔ پروگرام میں مختلف تعلیمی اداروں سے آئے ہوئے طلباء، اساتذہ اور سیاسی کارکنوں نے شرکت کی۔ مشاعرے کا آغاز پشتو شاعری سے ہو۔ ا اسکے بعد ایک ایک کر کے بلوچی، ہزارگی، براہوی اور اردو میں مختلف شعراء نے اپنی مزاحمتی اور رومانی دونوں قسم کی شاعری سنائی۔

آخر میں کامریڈ پارس جان نے اختتامی کلمات بھی ادا کئے اور اپنی انقلابی شاعری بھی سنائی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک زبردست آغاز ہے اور پی وائی اے کو اس سلسلے کو اسی طرح آگے بڑھانے کا عزم کرنا چاہئے اور یہاں موجود حکمران طبقے کی طرف سے مسلط کی گئی مصنوعی لکیروں کے خلاف جنگ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کی طرف بڑھنا ہمارا بنیادی فریضہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.