بغیر سہولیات کے آن لائن کلاسز، طلبہ کیساتھ ایک فراڈ

|تحریر: فرحان رشید|

پاکستان میں کورونا کی ابتدا کے ساتھ ہی ریاست نے تعلیمی اداروں کو معینہ مدت کیلئے بند کر دیا تاکہ اس وبا کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے، مگرایک طرف جہاں اس وبا نے ریاست کے نظامِ صحت کے کھوکھلے پن کو ننگا کیا ہے وہیں تعلیم کے شعبے کی تباہی کو بھی واضح کردیا ہے۔ سالہا سال کی بجٹ کٹوتیوں اور نجکاری کے شدید حملے سہتے ہوا تعلیمی نظام نہ صرف غیر سائنسی اور خستہ حال ہے، بلکہ اپنی غیرمعیاریت کی بھی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ مملکتِ خداداد میں تقریباً دو کروڑ 28 لاکھ بچے، جن کو سکولوں میں ہونا چاہیے تھا، سکول کی چار دیواری تک سے ناآشنا ہیں۔ ایسے میں ایک مخصوص اقلیت ہی یونیورسٹیوں تک رسائی حاصل کر پاتی ہے۔ اب چونکہ کورونا کے باعث 31 مئی تک تمام تعلیمی ادارے بند ہیں تو ریاست کی جانب سے آن لائن کلاسز کے اجراء کا اعلان کیا گیا جو کہ پہلے یونیورسٹی کے طلبہ کیلئے تھا لیکن اب اسکا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے سکول کے طلبہ کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔

آن لائن کلاسز، حقیقت یا باتیں؟

عام طور پر یہ سوچ ہی بہت دلکش لگتی ہے کہ سبھی طلبہ جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہورہے ہوں، اعلیٰ درجے کے لیپ ٹاپ، ایک ٹچ پہ دنیا جہاں کا سارا علم آپ کے سامنے ہو، گو آلہ دین کے چراغ پہ ہاتھ پھیریں اور علم کے چشموں سے سیراب ہوں۔ آن لائن کلاسز کے اجراء کو یقیناً ایسے ہی بنا کر پیش کیا گیا ہے، مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم اکثریت، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹرز کو صرف نام تک ہی جانتی ہے اور ڈگری کے ختم ہونے تک ان لوازمات سے محروم رہتی ہے۔ پھر لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر کے آن لائن استعمال کیلئے انٹرنیٹ کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس تک رسائی کیلئے اچھی خاصی رقم درکار ہے۔ ہمارے ملک کے تو ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں انٹرنیٹ سرے سے ہی نایاب ہے اور باقی جہاں کہیں موجود ہے بھی تو اس کی رفتار کچھوے کی مانند ہے اور یہ کچھوا صرف کہانی میں ہی دوڑ جیتتا ہے یہاں ہر بار لوڈنگ کا سلسلہ ہی جاری رہتا ہے۔ ان تمام حالات میں جہاں طلبہ کی ایک بڑی تعداد پسماندہ علاقوں اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھتی ہے، ان کے لیے آن لائن کلاسز محض خالی خولی باتوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔

طلبہ کیلئے فکرمند ریاست

جب آن لائن کلاسز کے اجراء کا اعلان کیا گیا تو ساتھ ہی یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ ہمیں طلبہ کی تعلیم میں خلل آنے کا خوف ہے، لیکن صرف تعلیمی بجٹ کو ہی دیکھ کر اس ریاستی فکر مندی کی قلعی کُھل جاتی ہے۔ 2019-20 کے بجٹ میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں نصف کٹوتی کردی گئی اور تعلیمی اداروں کو یہ حکم نامہ جاری کیا گیا کہ اپنے اخراجات کو خود پورا کریں جس کے نتیجے میں پہلے موجود بھاری بھرکم فیسوں میں 25 سے 100 فیصد تک بڑھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے طلبہ کو شدید معاشی اور ذہنی جبر کا شکار کیا گیا۔ اسی طرح ہمیں نظر آتا ہے کہ ایک طرف کئی دہائیوں سے تعلیمی اداروں کے اندر طلبہ یونین پہ پابندی ہے جس کے باعث طلبہ اپنے حقوق کے تحفظ سے قاصر ہیں اور دوسری طرف تعلیمی ادارے تعلیم گاہوں کی بجائے غنڈہ گردی اور اسلحہ کے اڈے نظر آتے ہیں۔ اگر ریاست کو واقعی طلبہ کی تعلیم میں خلل کا اس قدر خوف ہے تو ریاست کو تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرتے ہوئے تعلیم بالکل مفت کردینی چاہیے تھی اور ساتھ ہی تعلیمی اداروں کے اندر بہتر ماحول کو پروان چڑھانے کیلئے فوری طور پر طلبہ یونین بحال کردینی چاہیے تھی تاکہ طلبہ تعلیم دشمن ہرحملے کے خلاف لڑنے کے اہل ہو سکیں اور اپنے فیصلے خود کرسکیں۔ لیکن اس کے برخلاف طلبہ کی آواز کو دبانے کیلئے ناصرف پابندیاں عائد کی گئیں بلکہ فیسوں اور جرمانوں میں بھی اضافہ کیا گیا۔ یہ تمام تر حقائق یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ آن لائن کلاسز کے اجراء کا مقصد کیا ہے۔

آن لائن کلاسز کیسے ممکن ہیں؟

آج جب تمام تعلیمی ادارے بند ہیں اور طلبہ گھروں میں موجود ہیں تو اس کے نتیجے میں طلبہ کا تعلیمی حرج ہورہا ہے جس کا کوئی بھی ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے میں آن لائن کلاسز کا فورا آغاز کر کے ریاست اور تعلیمی اداروں کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ ”ہم نے تو اپنا کام کر دیا“۔ یعنی کہ اب اگر طلبہ نہیں پڑھتے تو یہ انکی کام چوری ہے۔ دوسری جانب وسائل نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ نے آن لائن کلاسز سے صاف انکار کر دیا۔ اس طرح بڑی صفائی کیساتھ ریاست اور تعلیمی اداروں کی جانب سے تمام طلبہ تک وسائل پہنچا کر انکے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے سے جان چھڑا لی گئی۔ آن لائن کلاسز یقینا وقت کی ضرورت ہیں اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب سے پہلے وہ تمام سہولیات طلبہ کو فراہم کرے جیسا کہ لیپ ٹاپ، تیز ترین مفت انٹرنیٹ اور درکار ٹریننگ۔ وہیں اساتذہ کیلئے بھی درکار ٹریننگ کا اہتمام کیا جائے اور ان کو بھی درکار تمام تر سہولیات فراہم کی جائیں۔ آن لائن کلاسز صرف اسی صورت میں ممکن ہیں جب ریاست اس مسئلے کو سنجیدگی کیساتھ دیکھے اور تمام وسائل مہیا کرے۔ یاد رہے یہ سب کرنا ریاست کا کوئی تحفہ نہیں ہوگا، یہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ جب تک ریاست سہولیات مہیا نہیں کر تی تب تک آن لائن کلاسز کا اجراء بند کرتے ہوئے سمیسٹر بریک کرے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.