ہزارہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کے رجعت پرستانہ احکامات نامنظور

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس|

6 جنوری 2021ء کو ہزارہ یونیورسٹی کے طرف سے طلبہ کے لیے ڈریس کوڈ کو لازم قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ ڈریس کوڈ کو لازم قرار دینے کا فیصلہ گورنر خیبر پختون خواہ شاہ فرمان کی جانب سے 29 دسمبر کو یونیورسٹی کے اکیڈمک کونسل کے ایک اجلاس میں طے پایا تھا جس پر بعد میں عمل پیرا ہوتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ نے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔

اس نوٹیفکیشن میں یونیورسٹی کی طالبات کو تنبیہ کیا گیا ہے کہ وہ یونیورسٹی میں مخصوص رنگ کا عبایا پہن سکتی ہیں اور عبایا کے ساتھ دوپٹہ یا چادر پہننا لازم ہو گا۔ طالبات کو جینز، تنگ لباس یا کُرتا پہننے اور میک اپ، زیورات اور بھاری ہینڈ بیگ کے استعمال سے بھی منع کیا گیا ہے۔ طالبات کی طرح طلباء کو بھی ڈریس کوڈ کے حوالے سے احکامات دیے گئے ہیں۔ طلباء کو جینز، تنگ لباس، شارٹس، چپل اور زیور پہنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ لمبے بال رکھنا، بالوں سے چوٹی بنانا اور داڑھی میں سٹائل بنانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ ہزارہ یونیورسٹی میں طلباء و طالبات کے ایک ساتھ بیٹھنے یا چلنے پر پہلے سے ہی پابندی عائد ہے۔

اس طرح کے اقدامات کی کیا وجوہات ہیں؟
1: انتظامیہ کے طرف سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ خواتین کو جنسی ہراسانی سے بچانے کے لیے ان کے لئے اسلامی ڈریس کوڈ متعارف کرایا گیا ہے، مگر اس مؤقف کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعات دن بدِن بڑھ رہے ہیں اور اکثریت واقعات میں یونیورسٹی انتظامیہ ہراسانی میں ملوث پائی گئی ہے۔ ایسے میں بجائے مجرمان کو سزا دینے کے الٹا مظلوم کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں ایک پروفیسر کے طرف سے طالبہ کو ہراساں کرنے کے خلا ف آواز اٹھانے پر مختلف طلباء کو یونیورسٹی سے خارج کر دیا گیا ہے مگر مجرم ابھی تک انتظامیہ کے پشت پناہی میں یونیورسٹی کے اندر موجود ہے۔ گومل یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے ایچ او ڈی نے جس طالبہ کو ہراساں کیا تھا وہ عبایا پہن کر یونیورسٹی جاتی تھی۔ ہراسگی کے مسئلے کا حل عبایا پہننا لازم قرار دینا نہیں بلکہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کو بحال کرتے ہوئے اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دے کر اس میں طلبہ کو نمائندگی دیے جانے سے تعلیمی اداروں میں ہراسگی کے واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔

2: ہزارہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ امیر اور غریب کا فرق ختم ہو جائے اس لئے انہوں نے یونیورسٹی میں ڈریس کوڈ متعارف کرایا ہے۔ یہ دعویٰ بھی حقیقت سے منافی ہے۔ امیر اور غریب کا فرق یا طبقات کا فرق کپڑوں کے بنیاد پر نہیں بلکہ ذرائع پیداوار کی ملکیت کی بنیاد پر ہے۔ ان تعلیمی اداروں کے نصاب میں اس فرق کے حوالے سے کوئی مضمون شامل نہیں۔ ان اداروں میں غیر طبقاتی سماج کا راستہ دکھانے والے نظریات کے اوپر بات کرنے پر پابندی ہے۔ اداروں میں مذہبی انتہا پسند تنظیموں کو سپورٹ کیا جاتا ہے جو انتظامیہ کی پشت پناہی میں طبقاتی تقسیم کے اوپر بات کرنے والوں پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ ادارے واقعی طبقاتی فرق کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو بجائے ڈریس کوڈ لاگو کرنے کے نصاب میں مارکسزم کے نظریات پڑھانا شروع کر دیں اور کیمپس میں ترقی پسند سیاست کی اجازت دیں۔

3: ایک اور جگہ یونیورسٹی کے ایک عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ آج کل طلبہ اپنا زیادہ وقت غیر صحت مند سرگرمیوں میں صرف کرتے ہیں۔ وہ تعلیم کے میدان میں مقابلہ کرنے کی بجائے فیشن میں مقابلے کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق طلبہ کا دھیان ان غیر صحت مند سرگرمیوں سے ہٹا کر نصابی سرگرمیوں کے طرف مائل کرنے کے لیے ڈریس کوڈ کو لاگو کیا گیا ہے۔

اگر ہم موصوف کے اس دعوے کا زمینی حقائق کے ساتھ موازنہ کریں تو ان کی بات مکمل طور پر غلط ثابت ہوتی ہے۔ آج پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں صحت مند سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نصابی سرگرمیاں محض رٹہ لگانے تک محدود ہیں۔ پروفیسر حضرات طلبہ کو پڑھانے سے زیادہ اسائنمنٹس دے کر اپنا سر درد کم کر رہے ہیں۔ طلبہ سے غیر نصابی سرگرمیاں چھین لی گئی ہیں۔ ایسے میں یہ دعویٰ کرنا کہ طلبہ ڈریس کوڈ نہ ہونے کے وجہ سے غیر صحت مند مصروفیات میں ملوث ہیں، ایک جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔

4: ڈریس کوڈ یا اس طرح کے دیگر نان ایشوز کو موضوعِ بحث بنانے کی ایک اور وجہ طلبہ کی بنیادی مسائل کے حوالے سے جاری تحریکوں اور ان مسائل کے حوالے سے مباحثوں کا رخ تبدیل کرنا ہے۔ انتظامیہ چاہتی ہے کہ طلبہ اپنے بنیادی مسائل جیسے کہ طلبہ یونین، فیسوں میں اضافے، جنسی ہراسگی، طبقاتی نظامِ تعلیم، بے روزگاری، مہنگائی وغیرہ کی بجائے ڈریس کوڈ اور اس طرح کے دیگر نان ایشوز پر بات کریں۔
اپنی مرضی کے کپڑے پہننا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ کسی بھی طالب علم پر زبردستی کوئی ڈریس کوڈ لاگو کرنا طلبہ سے ان کی مرضی چھین لینے کے مترادف ہے۔ پروگریسو یوتھ الائنس ہزارہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی طرف سے اس طرح کے رجعتی احکامات کی شدید مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ ڈریس کوڈ سے منسلک نوٹیفکیشن کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.