|تحریر: نفیسہ|
یہ تحریر ہمارے آن لائن میگزین ہلہ بول کے پہلے ایڈیشن میں شائع ہوئی تھی جسے اب ہم اپنے قارئین کیلئے اس ویب سائٹ پر شائع کر رہے ہیں۔
گرمی اپنے پورے جوبن پر تھی وہ سڑک کنارے کھڑی رکشے کا انتظار کر رہی تھی۔ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی عام سے نین نقوش رکھنے والی عام سی لڑکی۔ اس کے محنت کش باپ نے دن رات محنت کر کے اس کو پرائیویٹ ایم اے کروایا تھا۔ پچھلے دو سال سے وہ نوکری کے لئے خوار ہو رہی تھی، آج بھی ایک پرائیویٹ سکول میں انٹرویو دے کر آئی تھی۔
وہ گھر داخل ہوئی تو سامنے ہی چھوٹی بہن منہ بنائے بیٹھی نظر آئی۔ اس پہ نظر پڑتے ہی وہ بھاگ کر آئی۔ ”آپی مجھے نیا یونیفارم لینا ہے اور دیکھو نا اماں مجھے منع کر رہی ہے“ منہ بسورتے ہوئے مومنہ نے شکایت کی۔ ”ارے میں لے دوں گی نا اپنی بہن کو، چلو ابھی جا کے تم پڑھو“ اس نے اپنی چھوٹی بہن کو ٹالنے کی کوشش کی۔ ماں کے استفسار پر اس نے انٹرویو کا مختصر سا احوال سنا کر کہا کہ کچھ دن میں پتہ چلے گا کہ نوکری ملتی ہے یا یہاں سے بھی انکار ہوگا۔ ”چلو کچھ بہتر ہی ہوگا، تم کھانا کھا لو پھر بچے پڑھنے آ جائیں گے“ اس نے سر ہلایا اور کچن کی طرف چل دی۔
شام کے چار بج چکے تھے مگر مانو آج بھی پڑھنے نہیں آئی تھی حالانکہ روزانہ وہ پورے تین بجے رانیہ کے گھر ہوتی تھی، علی اپنا کام تقریبا ختم کر چکا تھا۔ رانیہ نے اس سے مانو کا پوچھا تو اس نے لا علمی کا اظہار کیا۔ مانو اور علی اس کے گھر سے پچھلی گلی میں رہتے تھے مانو 10 سال کی جبکہ علی 9 سال کا تھا۔ نوکری نہ ملنے کی وجہ سے وہ ٹیوشن پڑھانے پر مجبور تھی، بڑھتی ہوئی مہنگائی نے مڈل کلاس طبقے تک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، غریب بیچارہ تو فاقوں تک کے حالات میں تھا۔ خیر، اس نے سوچا کہ کل مانو کے گھر جا کے پتہ کرلے گی۔ اگلی صبح ہی اسے سکول سے لیٹر آ گیا، وہ خاصی حیرت میں تھی اور بہت خوش بھی۔
اگلے دن وہ سکول کے وقت سے گھنٹہ پہلے وہاں پہنچ چکی تھی۔ پرنسپل کے آفس میں انتظار کے لئے بٹھایا گیا۔ آج اس کے چہرے کا رنگ ہی کچھ اور تھا جیسے اسکے ہاتھ قارون کا خزانہ لگ گیا ہو۔ پرنسپل کے آتے ہی وہ کھڑی ہو گئی، وہ 50 سال کا چمکتی آنکھوں والا مرد تھا، چہرے پہ لاپرواہی کے تاثرات لئے وہ اسکو دیکھ رہا تھا۔ رانیہ نے اپنا تعارف کروایا، سر ہلا کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا گیا۔ ”دیکھئے مس رانیہ ہم نے آپکو اس امید پہ نوکری دی ہے کہ آپ ہمارے سکول کی ریپوٹیشن پہ کوئی آنچ نہ آنے دیں گی، آپ کل سے جوائن کر لیں اور اگر کوئی سوال ہے تو پوچھیں“ آدمی نے ایک ہی سانس میں بات ختم کی۔ ”سر میں سب باتوں کا خیال رکھوں گی مگر میرے گھر کے حالات ایسے ہیں کہ 6000 روپے کی تنخواہ بہت کم ہے“، پرنسپل نے عجیب سی مسکراہٹ سے اسے دیکھا ”آپ فکر نہ کریں ہمارے مطابق کام کریں آپ جو کہیں گی آپکو مل جائے گا“، اسکی آنکھوں میں کچھ عجیب سا تاثر تھا جسے دیکھ کر اس نے گھبرا کر نظریں نیچی کر لیں اور اجازت مانگ کر باہر نکل آئی یہ جانے بغیر کی دو مسکراتی آنکھوں نے اسکا باہر تک پیچھا کیا تھا۔
سکول سے واپسی پہ اس نے پہلے مانو کے گھر جانے کا سوچا۔ اسکے گھر کا دروازہ بجانے پر اسے دو منٹ تک انتظار کرنا پڑا، دروازہ مانو کی ماں نے کھولا جسکی سوجی ہوئی آنکھیں دیکھ کر رانیہ کے دل کو کچھ ہوا۔ ”مانو دو دن سے پڑھنے نہیں آئی تو میں اسکا پتہ کرنے چلی آئی“ اسکے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ مانو کی ماں زور زور سے رونے لگی۔ رانیہ اسکو لے کر گھر میں داخل ہوئی اور اسے بٹھا کر پانی پلایا۔ مانو کی ماں اسکے بولنے سے پہلے بول پڑی ”اس سہہ پہر مانو سکول سے آ کے آپ کے گھر جانے کے لئے نکلی تھی، پھر گھر نہیں آئی۔ اگلی صبح کوڑے کے ڈھیر سے اسکی لاش ملی“ عورت پھر سے رونے لگی اور رانیہ سن دماغ لئے بیٹھی تھی اسکی نگاہوں میں مانو کی معصوم صورت گھوم رہی تھی، عورت پھر بولی ”مانو کے جسم پہ تشدد کے نشان تھے، کسی درندے نے بہت بیدردی سے میری پھول سی بیٹی کو مسل دیا۔ پولیس والے کہتے ہیں کسی نے دشمنی میں بچی کو مار دیا، ہم غریبوں کی کیا کسی سے دشمنی ہوگی بھلا“ عورت کی دہائی پھر شروع ہو چکی تھی۔ رانیہ نم آنکھیں لئے وہاں سے اٹھ آئی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی کیسے ایک 10 سال کی بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ کوئی اتنا وحشی سنگدل کیسے ہو سکتا ہے؟
مانو والے حادثے کو گزرے دو مہینے ہو چکے تھے اور ابھی تک قاتل کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا ہاں مگر اس نوعیت کے دو مزید حادثے اسی علاقے میں پیش آ چکے تھے جسکی وجہ سے لوگوں میں خوف پھیل چکا تھا اور بچیوں کو اکیلے گھروں سے نکلنے نہ دیا جاتا تھا۔ ایسے میں رانیہ کو علی کے رویے میں کچھ تبدیلی محسوس ہو رہی تھی وہ کافی دن سے کھویا اور ڈرا ہوا رہتا تھا، کچھ بولتا بھی نہیں تھا۔ رانیہ نے آخر اسکو پاس بٹھایا اور پوچھ لیا کہ کیامسئلہ ہے، وہ کافی دیر چپ بیٹھا رہا پھر دبی سی آواز میں بولا ”مس مجھے قاری صاحب کے پاس پڑھنے نہیں جانا، آپ مجھے گھر میں پڑھا دیا کریں، میری اماں سے کہیں مجھے وہاں نہ بھیجے“ یہ کہہ کر وہ رونے لگا۔ رانیہ کو کسی انہونی کا اندیشہ ہوا۔ ”کیا مسئلہ ہے علی؟ وہ تمہیں مارتے ہیں کیا؟“ رانیہ نے پوچھا۔ ”ہاں۔۔اور۔۔“ علی خاموش ہو گیا۔ ”بولو، تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں“ رانیہ نے اسے حوصلہ دیا، جو مانو کے ساتھ ہو چکا تھا وہ اب علی کے ساتھ نہیں ہونے دینا چا ہتی تھی۔ ”مجھے بہت مارتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں اور میری مرضی کے بغیر مجھے ہاتھ لگاتے ہیں“۔ رانیہ سکتے میں آ گئی۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہاتھا۔ علی کو تو وہ بچا لے گی مگر ان باقی بچوں کا کیا ہوگا جو کسی کو بتا نہیں سکتے۔ اسے ان بچوں سے زیادہ خود پہ ترس آیا، وہ بھی تو دو مہینے سے پرنسپل کی معنی خیز باتوں اور نظروں کا سامنا کر رہی تھی اور آج تک کسی کو بتانے کی ہمت نہیں کر پائی تھی اور بتاتی بھی کیسے، اسکے کردار پہ اگر کوئی بات کرتا تو وہ برداشت نہ کر پاتی۔ وہ عجیب مخمصے کا شکار تھی۔ نہ جانے کتنے بچے ہوں گے جو اس طرح کی زیادتیوں کا شکار ہوں گے۔ نہ جانے کتنی لڑکیاں ہوں گی جو ہراسگی کا شکار ہوں گی اور صرف اس لئے خاموش ہوں گی کہ انکے خاندان کی عزت پہ کوئی آنچ نہ آئے، معاشرہ ان پہ انگلی نہ اٹھائے۔
ایسے بے شمار قصے ہیں جن کو گھروں کے اندر ہی دفن کر دیا جاتا ہے اور جو چند قصے باہر نکلتے ہیں انہیں انصاف کے انتظار میں زنگ لگ جاتا ہے۔ اس سماج کی جڑیں نہ جانے کتنے معصوموں کی آہوں اور لہو سے کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ اور اب انتظار اس بات کا ہے کہ کب شعور منظم ہو کر اس سماج کو اس کے ناسور سمیت نکال کر باہر کرتا ہے تا کہ آدمی انسان بن کر جی سکے۔