شایان شاہ کی قاتل، مہران یونیورسٹی کی انتظامیہ کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے!

|تحریر: جی ایم بلوچ|

10 فروری 2020 بروز سوموار ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ رونما ہوا۔ مہران یونیورسٹی میں سال دوم کے طالب علم شایان شاہ بس سے گر کر ایک گاڑی کے نیچے آکر وفات پا گیا۔ اس واقعہ کو دیگر واقعات کی طرح ایک حادثے کے طور پر پیش کیا جارہا ہے اور یہ تاثر بنایا جا رہا ہے کہ اس میں انتظامیہ کی کوئی غلطی نہیں بلکہ یہ حادثہ اچانک ہوا۔ دوسری جانب یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مگر مچھ کے آنسو بھی بہائے جا رہے ہیں اور اس پر افسوس بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ درحقیقت اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اسی طرح کے بے شمار واقعات پاکستان کے ہر تعلیمی ادارے میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بالخصوص سندھ میں ان واقعات کا ایک نہ رکن والا سلسلہ موجود ہے۔

اکیسویں صدی میں جہاں عالم انسانیت ہر روز جدید سائنسی ایجادات سے روشناس ہورہی ہے وہیں یہ ایجادات ایک مخصوص طبقے کی تفریح کا سامان اور دوسری جانب محنت کشوں کی زندگیوں کو ایک عذاب بنتی جا رہی ہیں۔ آج جب انسانی زندگی کی تحفظ کے لیے ان ایجادات کو استعمال میں لانے کی ضرورت ہے تب یہ چند ہاتھوں میں محصور ہو کر رہ گئیں ہیں۔ جو آئے روز اکثریت آبادی کے کسی فرد کے قتل کی وجہ بنتی ہیں۔ ایک لمبے عرصے سے پاکستانی طلبہ بھی انہیں حادثات کی زد میں ہیں۔ ان طلبہ کی اکثریت بہت سے مشکلات کو جھیلتے ہوئے بڑی جدوجہد کے بعد یونیورسٹی پہنچتے ہیں۔ جہاں ایک مشینی پرزے کی طرح دن رات اسائنمنٹ، مڈ ٹرم، سمیسٹر اور دیگر تعلیمی سرگرمیوں کے بھٹے میں جھلس کر جب ہاسٹلز کا رخ کرتے ہیں (اول تو نہیں ملتے، اگر ملیں بھی تو مہنگی فیس اور انتظامیہ کے کسی ایجنٹ کے ذریعے ملتے ہیں)، جہاں میس پر خراب کھانا، آلودہ کمرے اور پانی کی کمی یعنی سانس لینا بھی دشوار ہو، جیسے مسائل اپنے ساتھ لیے ہوتے ہیں۔ ان مسائل کے سبب جب کوئی طالب علم بیمار ہوجائے تو ڈسپنسری کی سہولت نہیں ہوتی جس کے سبب بہت سے طلبہ زندگی سے ہاتھ کھو بیٹھتے ہیں۔ گزشتہ سال روالپنڈی میں عروج فاطمہ کا واقعہ بھی اسی طرح پیش آیا تھا۔ ان سب سے بیزار یا ان سہولیات سے محروم طلبہ جب قریب موجود کسی شہر میں رہائش اختیار کریں تو ان کے لیے ٹرانسپورٹ کا ایک اور مسئلہ ان کے سامنے ہوتا ہے۔ یعنی خستہ حال بسیں، جن کا ٹھیکا انتظامیہ کے لاڈلے ٹرانسپورٹرز کے پاس ہوتا ہے۔ یہ بسیں تعداد میں انتہائی کم اور خستہ حال ہوتی ہیں، انکے کرایوں میں آئے روز اضافہ ہوتا رہتا ہے (حالانکہ فیس میں ٹرانسپورٹ فیس بھی شامل ہے) اور مرضی کے مطابق ٹرانسپورٹ مالکان ان کے اوقات کار میں تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں۔

اسکی کئی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں مثلا شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی، جہاں سیٹ نہ ملنے کی صورت میں بہت سے طلبہ چھت پر بیٹھ کر سفر کرتے ہیں۔

اسی طرح ٹرانسپورٹ مالکان اور انتظامیہ کی نااہلی کے سبب جامشورو کی درسگاہ میں، پانچ سے چھ نوجوانوں کی اموات دیکھی جا چکی ہیں۔ گزشتہ سال کا ایک اہم واقعہ جو سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کی خبروں پر رہا وہ سندھ یونیورسٹی کے فزکس شعبے کی طالبہ شائستہ میمن کو نشے میں غرق ایک بس ڈرائیور نے سینٹرل لائبریری کے سامنے کچل ڈالنے کا تھا، جس پر طلبہ کا غم و غصہ ایک مزاحمت میں تبدیل ہوا اور انہوں نے مکمل تعلیمی سرگرمی کو بند کرکے نیشنل ہائی وے روڈ پر دھرنا دیا۔ مزاحمتی قیادت کی کمی کے سبب اس غصے کو وی سی اور طلبہ میں موجود طلبہ دشمن عناصر نے کئی ہتھکنڈوں کے ذریعے ذائل کر دیا۔ اس طرح شائستہ کے قتل کو ایک حادثے میں تبدیل کیا گیا۔

اس کے بعد شاہ زیب نامی طالب علم کی وفات بھی اسی طرح بس سے گر کر ہونے سے ہوئی۔اسکی وابستگی بھی سندھ یونیورسٹی سے ہی تھی۔ وہ بس کے گیٹ پر کھڑا ہو کر سفر کرہا تھا کیونکہ بسوں کی قلت کی وجہ سے اور کوئی چارہ نہ تھا۔ تیز رفتار بس سے اچانک وہ گر گیا اور ایک گاڑی کے نیچے آ کر وفات پا گیا۔ اس کو نااہل انتظامیہ نے حادثہ قرار دے کر اپنی بدعنوانیوں پر پردہ ڈال دیا۔

اس کے بعد ایک اور واقعہ بھی اسی طرح پیش آیا جس کے سبب فارمیسی کے طالب علم دانیال ارائیں کی موت واقعہ ہوئی۔ جس پر فارمیسی کے طلبہ نے روڈ بلاک کیا۔ ضلعی پولیس انہیں ہراساں کرنے آئی تو یہ مزاحمتی طلبہ ڈٹے گئے۔ مگر ایک منظم طلبہ قیادت کی کمی کے باعث، طلبہ دشمن عناصر نے ایک بے معنی سے مطالبے کے ذریعے طلبہ کی جدوجہد کو انتظامیہ سے مل کر ضائع کر دیا۔

دوسری جانب طلبہ کے لیے یہ سبق ہے کہ طلبہ میں موجود طلبہ دشمن عناصر کو اپنی صفحوں سے باہر کیا جائے اور ایک مزاحمتی قیادت کے پرچم تلے منظم ہو کر ایک لڑائی لڑی جائے۔ جو پرانے تمام طریقوں سے مختلف ہو۔ اب ایک پرزور مزاحمت سے اس انتظامیہ کو باور کرایا جائے کہ طلبہ اور محنت کش ہی ان اداروں کے حقیقی مالک ہیں۔ اب سالانہ پروگرام، پیدل مارچ اور مظاہروں سے آگے بڑھا جائے۔ یہ تمام واقعات جہاں انتہائی افسوس ناک ہیں وہیں طلبہ کے لیے سبق بھی، کہ یہ مسائل صرف سندھ یونیورسٹی تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ یہ دیگر درسگاہوں میں بھی موجود ہیں۔ لہٰذا پہلے ملک گیر سطح پر ایک دوسرے کے سنگ خود کو جوڑا جائے پھر اسے خطے کے دیگر طلبہ سے جوڑ کر اس قاتل انتظامیہ سمیت اس قاتل نظام کے خلاف بھی لڑا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.