اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور: فیسوں میں ہوشربا اضافہ اور انتظامیہ کی پالتو تنظیموں کا گماشتانہ کردار، لڑا کیسے جائے؟

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بہاولپور|

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی جانب سے نئے داخلوں اور پہلے سے داخل شدہ طلبہ کی فیسوں میں ہوشربا اضافہ کیا گیا جس کے خلاف طلبہ کی ایک منظم جدوجہد کے امکانات موجود ہیں۔ انتظامیہ نے کسی حقیقی طلبہ تحریک سے بچنے کےلیے اس مسئلے کے گرد اپنی پالتو طلبہ تنظیموں اور کونسلوں کو میدان میں اتارا اور طلبہ کے قائم شدہ الائنس پر ایک خود ساختہ قیادت مسلط کی۔ اس خود ساختہ قیادت نے انتظامیہ سے مذاکرات کیے اور انتظامیہ نے وہ تمام مطالبات تسلیم کیے جو طلبہ کے مطالبات تھے ہی نہیں.

14 اکتوبر 2021ء کے روز اسلامیہ یونیورسٹی طلبہ الائنس نے فیسوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاج کے دن طلبہ کی کسی کثیر تعداد کو باہر نکالنے میں یہ الائنس مکمل طور پر ناکام رہا جس کا بنیادی سبب انتظامیہ کی مسلط کردہ قیادت ہی تھی جن سے ایک طرف تو عام طلبہ نفرت کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف ان کو عام طلبہ کے نکلنے سے مکمل طور پر خود خطرہ لاحق تھا اور احتجاج میں اور مذاکرات میں بھی واضح نظر آیا کہ عام طلبہ کی منتخب قیادت کو مکمل طور پر دیوار سے لگایا گیا اور انتظامیہ نے ان لڑکوں سے مزاکرات کیے جن کی اکثریت کو الائنس کے نمائندے خود تک نہیں جانتے تھے دراصل یہاں انتظامیہ کو سابقہ انجمن طلباء اسلام اور جمعیت کے غنڈوں کو خود ہی طلبہ کی قیادت کے طور پر لانا تھا اور وہ یہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد ہونا وہی تھا جو انتظامیہ چاہ رہی تھی یعنی الائنس کی قیادت انتظامیہ کی گود میں جا بیٹھی اور اپنی مصنوعی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے ڈی ایس اے سے زبانی دعویٰ جات لے کر چلی آئی اور اب جب یونیورسٹی نے فیسوں کے اضافے کا نیا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے تو یہ الائنس کی قیادت فیسوں میں اضافے کی فضیلتیں بیان کررہی ہے۔نئے نوٹیفیکیشن کے مطابق اب دس ہزار کی بجائے 7500 فیس بڑھائی جائے گی یعنی پہلے جو اضافہ ہوا اس میں سے صرف ایک سمیسٹر کے لیے 25 فیصد کم کیا جائے گا یعنی اگلے سمیسٹر میں دوبارہ سے یہ اضافہ برقرار رہے گا۔ مزید جو طلبہ فیس دے چکے ہیں ان کو واپس نہیں کی جائے گی بلکہ اگلے سمیسٹر میں ایڈجسٹ کی جائے گی۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ آخری سمیسٹر کے طلبہ جو فیس دے چکے ہیں وہ ری فنڈ کی کوئی امید نہ رکھیں۔ اسی طرح ہاسٹل فیسوں میں بھی کوئی کمی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی نئے آنے والے طلبہ کو کوئی ریلیف دیا گیا ہے۔

No photo description available.

یہاں ہمیں سب سے پہلے اس فیسوں میں اضافے کے معاملے کو سمجھنا ہوگا۔ تعلیم کی اہمیت کا راگ الاپنے والی اس تبدیلی سرکار نے تعلیمی شعبے سے جس قدر کھلواڑ کیا ہے اس کی مثال ماضی کے ادوار میں تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتی۔ رواں برس کے بجٹ میں ہائیر ایجوکیشن کے سابقہ منصوبوں کو برقرار رکھنے کے لیے درکار رقم تک نہیں دی گئی بلکہ حکومت آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے زیرِاثر تعلیمی اداروں کی نجکاری کرنے کی جانب بڑھ رہی ہے جس کے تحت تعلیمی اداروں کو خود مختار کیا جارہا ہے۔ خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ تعلیمی ادارے اپنے تمام تر اخراجات کے لیے درکار رقم خود پیدا کریں۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ وہ طلبہ کی فیسوں میں ہوشربا اضافے کریں تاکہ ادارے چل سکیں۔

اس پالیسی کی وجہ سے ملک بھر کی جامعات کی فیسوں میں ہوشربا اضافہ ہوا اور اسی روایت کو اپناتے ہوئے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی انتظامیہ نے نئے داخلوں کی فیسوں میں 30 فیصد سے بھی زیادہ اضافہ کیا ہے۔ یہ اضافہ دراصل بہاولپور اور گرد و نواح کے ہزاروں طلبہ پر تعلیم کے دروازوں کی بندش کا کھلا اعلان ہے جس کی پروگریسو یوتھ الائنس سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔

ایک طرف جہاں نئے داخلوں پر فیسوں میں اضافہ کیا گیا ہے وہیں دوسری جانب پہلے سے داخل شدہ طلبہ پر بھی فیسوں میں اضافے کا بم پھوڑا گیا ہے جس کی تفصیلات جاننے کیلئے یہاں کلک کریں۔

فیسوں میں اس اضافے کے خلاف طلبہ میں ایک نفرت پائی جارہی ہے جس کی بنیادی وجہ ملک میں پنپتا معاشی بحران ہے جس نے خاص کر کرونا وباء کے دوران گھروں میں موجود طلبہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس کے علاوہ کرونا وباء کے دوران انتظامیہ کی جانب سے مچائی گئی لوٹ مار کی پالیسی نے بھی طلبہ کے شعور پر واضح اثرات ڈالے ہیں اور اس وقت ہر طالب علم بخوبی اس بات سے آشنا ہے کہ یہ تعلیمی ادارے صرف تعلیم کا دھندہ کرتے ہیں جن کا واحد مقصد دولت کمانا ہے۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں فیسوں میں اضافے کے خلاف طلبہ کا ایک الائنس بھی تشکیل دیا گیا تھا جس کا ہم نے ابتدا میں ذکر کیا ہے اس الائنس میں اکثریت عام طلبہ پر مشتمل ہے مگر چند افراد انتظامیہ کے ایماء پر اس کی پالتو تنظیموں انجمن طلبہ اسلام اور سٹیٹ یوتھ پارلیمنٹ کے بھی ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ اور پشتون طلبہ کو سیاست سے دور رکھنے والی کونسلوں کے نمائندگان بھی شامل ہیں۔ اس الائنس نے 14 اکتوبر بروز جمعرات کو بغیر کوئی کمپئین چلائے احتجاج کی کال دے کر یہ سمجھا کہ ان کے صرف کال دینے پر طلبہ اُمڈ آئیں گے۔ احتجاج میں بالآخر وہی ہوا کہ طلبہ کی بہت کم تعداد شریک ہوئی اور عام طلبہ کو مکمل طور پر سائیڈ لائن کردیا گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اچانک انتظامیہ کی پالتو تنظیموں کے کارکنان چند طلبہ کو ساتھ لے کر انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کرنے چلے گئے۔ جب وہ مذاکرات کا ڈرامہ ختم کر کے واپس آئے تو آ کر طلبہ کو کہنے لگے کہ وہ کامیاب ہو گئے ہیں اور انتظامیہ نے ان کی مانگیں مان لی ہیں۔ اور انتظامیہ نے فیسوں میں اضافے پر نظر ثانی کرنے کے لیے وقت مانگا ہے اور فیس ادا کرنے کی تاریخ میں دو دن کی توسیع کردی ہے۔ لہٰذا احتجاج ختم کرا دیا گیا۔

اس کے بعد الائنس کے ممبران کی جانب سے 16 اکتوبر کو ڈی ایس اے سے پھر میٹنگ کی گئی اور میٹنگ کے بعد ممبران کی جانب سے یہ میسج چلایا گیا کہ فیسوں میں واضح کمی ہورہی ہے لہٰذا ہم جیت گئے۔ مگر 19 اکتوبر کو جب نوٹیفیکیشن آیا تو سب امیدوں پر پانی پھر گیا کیونکہ کوئی کمی نہیں کی گئی بلکہ کرونا ریلیف پیکج کا نام دے کر نئی اضافہ شدہ فیس کا 25 فی صد کم کرنے کا کہا گیا اور نئے آنے والے طلبہ کو بھی کوئی پیکج نہیں دیا گیا۔

پروگریسو یوتھ الائنس سمجھتا ہے کہ فیسوں میں اضافے کے خلاف طلبہ کے اتحاد کے ذریعے ہی لڑا اور جیتا جاسکتا ہے۔ مگر یہاں طلبہ اتحاد کا مطلب قطعاً ”تمام طلبہ تنظیموں کا اتحاد“ نہیں ہے جس میں ہر طرح کی غنڈہ گرد اور موقع پرست تنظیمیں شامل ہوں۔ ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ان تنظیموں کا اتحاد تو دور، ان کا موجود ہونا بھی طلبہ کے لیے انتہائی نقصان دہ، کیونکہ انہیں انتظامیہ خود احتجاجی تحریک میں بھیجتی ہے تاکہ معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھ سکے۔ یہاں ایک اور سوال آجاتا ہے کہ کیا ہم طلبہ تنظیموں کے ہی مخالف ہیں؟ ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہمیں طلبہ تنظیموں کے ہونے سے سراسر اختلاف نہیں لیکن جو نام نہاد طلبہ تنظیمیں یونیورسٹی میں موجود ہیں نہ تو وہ تنظیمیں ہیں اور نہ ہی ان کو طلبہ سے کوئی سروکار ہے بلکہ یہ انتظامیہ کی ایماء پلنے والے غنڈہ گرد گروہ ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی کی تمام تر غنڈہ گردی اور بدمعاشی کی تاریخ دراصل انجمن طلبہ اسلام کی ہی تاریخ ہے۔ کوئی کینٹین نہیں جہاں سے یہ بھتہ نہ وصولتے ہوں، کوئی لڑکی نہیں جس کو انہوں نے ہراساں نہ کیا ہو، کوئی طالب علم نہیں جس کو انہوں نے دھمکی دھونس سے نہ ڈرایا ہو۔

طلبہ اتحاد سے ہماری کیا مراد ہے؟ طلبہ اتحاد سے ہماری مراد جامعہ کے تمام طلبہ کا اتحاد ہے نہ کہ طلبہ تنظیموں اور کونسلوں کا اتحاد۔ ایسا اتحاد جس میں ہر ڈیپارٹمنٹ اور ہر کلاس کے طلبہ کی جڑت ہو۔ عملی سیاست میں اس کا اطلاق یوں ہوتا ہے کہ کسی بھی احتجاج سے قبل ہر ایک طالب علم تک پیغام پہنچایا جائے، طلبہ کی تعداد کے حساب سے پروپیگنڈا پمفلٹ چھاپے جائیں جن میں طلبہ کے مطالبات اور جدوجہد کا لائحہ عمل لکھا گیا ہو۔ ان مطالبات اور پروگرام پر طلبہ کو جیتا جائے اور اس بنا پر پھر ہر کلاس، پھر ڈیپارٹمنٹ اور یوں پوری یونیورسٹی کے پیمانے پر طلبہ کی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ مثال کے طور پر اگر احتجاج کی کال ہو تو اس سے پہلے ہر طالب علم اس احتجاج کے بارے میں جانتا ہو اور اس کو اس چیز کا احساس ہو کہ احتجاج سے لے کر مذاکرات کے عمل تک میں وہ شریک ہے۔

اب ہم اس بنیاد پر طے کرسکتے ہیں کہ اس فیسوں میں اضافے کے خلاف کیسے لڑا جاسکتا ہے؟ اس وقت ضروری ہے کہ واٹس ایپ اور فیس بک پیجز پر احتجاج کی کال دینے کی بجائے گراؤنڈ پر کام کمپئین کرنا ہوگی۔ یعنی کہ طلبہ سے چندہ اکٹھا کر کے کم از کم 50 ہزار پمفلٹ چھاپے جائیں، پھر وہ پمفلٹس ہر ایک کلاس میں ہر ایک طالب علم تک لے جائے جائیں جہاں طلبہ کو واضح موقف پر جیتتے ہوئے کلاس روم لیول پر نمائندگان کا انتخاب کیا جائے۔ اس عمل کے بعد پھر ایک کیمپس بند احتجاج کی کال دینی چاہیے۔ ایک ایسا احتجاج جس میں کوئی طالب علم کلاس میں نہ ہو، کوئی ایک شٹل نہ چلے، ہر ایک کام مکمل مفلوج ہو کر رہ جائے اور انتظامیہ خود خوفزدہ ہو کر مذاکرات کی جانب بڑھے نہ کہ طلبہ ان کی منت سماجت کریں اور مذاکرات بند کمروں کی بجائے سڑکوں پر طلبہ کے سامنے ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں یہی وہ طلبہ اتحاد ہوگا جس کی ہم بات کررہے ہیں اور ایک ایسے ہی اتحاد کے قیام کی پروگریسو یوتھ الائنس جدوجہد کررہا ہے۔

یہاں ہم چند ایک اطلاعات دینا چاہیں گے:

1۔ یہ کوئی ایک روز کا احتجاج نہیں بلکہ مطالبات کی منظوری تک جاری رہنے والی طلبہ تحریک ہوگی۔
2۔ تمام تر روایتی تنظیمیں بارہا ننگی ہوچکی ہیں سو طلبہ کو ان کو اپنی صفوں سے باہر نکالنا ہوگا۔
3۔ طلبہ کو مکمل طور پر تیار ہونا ہوگا کہ انتظامیہ جبر اور دھونس دھمکیوں کی راہ اپنا سکتی ہے، اس سے لڑنے کیلئے طلبہ کو فوراً اپنی کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی۔
4۔ احتجاجوں کے دوران طلبہ کو پرامن سیاسی جدوجہد کی راہ اختیار کرنا ہوگی اور انتظامیہ کے اُکسانے پر یا ان کے پالتو غنڈوں کے اُکسانے پر بھی تشدد کی راہ سے بچنا ہوگا۔
5۔ طلبہ کو اپنا ایک سیاسی منشور طے کرتے ہوئے گراؤنڈ لیول تک تنظیم سازی کرنا ہوگی۔
6۔ کلاس ٹوکلاس اپنا لیف لیٹ لے کر جانا ہوگا اور طلبہ کو متحد کرنا ہوگا۔
7۔ ایک مضبوط اور بے خوف لیڈر شپ تشکیل دینا ہوگی۔
8۔ اس اضافے کے خلاف لڑائی کو ایک روزہ احتجاج کی بجائے تحریک بنانا ہوگا۔
9۔ بہاولپور کے دیگر تعلیمی اداروں سے یکجہتی کے لیے طلبہ کے وفد بھیجنے ہوں گے۔

اگر اسلامیہ یونیورسٹی کے لگ بھگ 50 ہزار سے زائد طلبہ ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں تو صرف اسلامیہ یونیورسٹی ہی نہیں بلکہ حکومتِ پاکستان و تمام ادارے خود طلبہ کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوں گے۔ ایسی ایک تحریک نہ صرف جامعہ اسلامیہ بلکہ ملک کی تمام جامعات کے طلبہ کیلئے حقوق کے حصول کی جدوجہد میں مشعلِ راہ بنے گی۔ پروگریسو یوتھ الائنس ایسی ہی جدوجہد کے لیے ملک بھر کی جامعات میں طلبہ کو منظم کررہا ہے اور پروگریسو یوتھ الائنس اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے طلبہ کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ لڑنے کا اعادہ کرتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.