اسلام آباد: ہاسٹل سٹی میں ”ہراسمنٹ کیخلاف کیسے لڑا جائے؟“ کے عنوان پر سٹڈی سرکل کا انعقاد

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، اسلام آباد|

25 فروری بروز جمعرات، محنت کش خواتین کے عالمی دن کی تیاریوں کے سلسلے میں پروگریسو یوتھ الائنس اسلام آباد کے زیرِ اہتمام ہاسٹل سٹی چٹھہ بختاور میں ”ہراسمنٹ کے خلاف کیسے لڑا جائے؟“ کے عنوان سے سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔

پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنوں نے سرکل میں ہاسٹل سٹی چٹھہ بختاور کے مختلف ہاسٹلوں میں رہائش پذیر طلبہ کے ساتھ جنسی زیادتی اور ہراسمنٹ کے مسئلے پر بات چیت کی اور دعوت نامے تقسیم کیے۔ پروگریسو یوتھ الائنس کے اس عمل کو طلبہ کی طرف بے حد سراہا گیا۔

سٹڈی سرکل میں مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ نے شرکت کی جس کا آغاز تقریباً شام کے چھ بجے کیا گیا۔ سٹڈی سرکل تین نشستوں پر مشتمل تھا۔ پہلی نشست میں کامریڈ علی رضا نے تفصیلی گفتگو کی۔ علی رضا نے اپنی گفتگو کے آغاز میں ہراسمنٹ کی معنی بتائے اور مزید کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ صرف عورت کی جنسی ہراسانی کو ہی ہراسمنٹ سمجھا جائے۔ جب طلبہ اور محنت کش اپنے حقوق کے لیے احتجاجوں، دھرنوں یا جلسوں کی شکل میں ان جابر حکمرانوں سے اپنا حق مانگنے نکلتے ہیں تو اس وقت ان کو دھمکیوں، لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ اور مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے تاکہ وہ منتشر ہو جائیں۔ یہ عمل بھی ہراسمنٹ کی ایک قسم ہے۔ پوری دنیا میں ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے طور منایا جاتا ہے اس سلسلے میں پاکستان میں لبرلز اور فیمینسٹ اس دن کو عورت آزادی کے نام سے مناتے ہیں۔ جو درحقیقت محنت کش خواتین کا عالمی دن ہے۔ ہم سمجھتے ہیں گویا وہ ایک تہوار منا رہے ہیں کیونکہ ان کے مطالبات میں خواتین کے اصل مسائل نہ تو دیکھنے کو ملتے ہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ ہمیں محنت کش طبقہ نظر آتا ہے۔

علی رضا کا کہنا تھا کہ فیمنسٹوں اور لبرلز کا نظریہ یہ ہے کہ عورت کا استحصال کرنے والا فقط مرد ہے اور وہ عورت کو فقط جنس کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک عورت پر ہونے والا جبر صرف اور صرف صنفی اور جنسی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ عورت کو آزادی کا جھانسا دیتے ہیں۔ جبکہ ہم مارکسسٹ خواتین کے استحصال کو طبقاتی بنیادوں پر دیکھتے ہیں۔ پاکستان جیسے سماج میں عورت دوہرے جبر کا شکار ہے ایک تو سرمایہ داری کا جبر اور دسرا صنفی جبر جسکی بنیادیں ہمارے خاندانی نظام کے اندر موجود ہیں۔ لیکن سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین اس جبر کا شکار نہیں ہیں بلکہ محنت کش طبقے کی خواتین کے اوپر ہونے والے جبر میں برابر کی حصہ دار ہیں۔ علی رضا کی تفصیلی گفتگو کے اختتام پر سٹڈی سرکل میں موجود شرکاء نے سوالات کیے اور بحث میں حصہ لیا۔

سٹڈی سرکل کی دوسری نشست میں پروگریسو یوتھ الائنس (راولپنڈی، اسلام آباد) کے آرگنائزر سنگر خان نے سماج میں خواتین کی حالت زار، خواتین کو کام کی جگہوں پر ہراسمنٹ کے درپیش مسائل اور طلباء و طالبات کو کیمپس میں درپیش مسائل پر تفصیلی بات کی۔سنگر نے بتایا کہ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک میں اور ترقی پذیر ممالک میں اگر دیکھا جائے تو دونوں میں ہی عورت کو ریپ یا ہراسمنٹ کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے کیس رپورٹ ہوتے ہیں لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں کیس رپورٹ نہیں ہوتے کیونکہ یہاں پر اس طرح کے کیسز کو رپورٹ کرنے کیلیے اوّل تو ادارے موجود نہیں اور گر یہ سہولت میسر بھی ہو تو رپورٹ کرنے کے بعد پورے خاندان کا نفسیاتی و سماجی دباؤ سہنا ہے۔ پاکستان میں اگر کسی عورت کے ساتھ ریپ یا ہراسمنٹ ہوتی ہے تو بجائے مجرم کے الٹا مظلوم کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے جس کی مثال سانح موٹروے اور اس جیسے سینکڑوں واقعات ہیں۔

سٹڈی سرکل کی تیسری نشست میں کامریڈ عمر ریاض نے بحث کے دوران موصول شدہ سوالات کے جوابات دیے۔ کامریڈ نے بتایا کہ یہاں صنفی بنیادوں پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور کم سن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ وہ معصوم اپنی حفاظت نہیں کر پاتے اور لوگوں کے دباؤ میں آسانی سے آ جاتے ہیں۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں میں بھی انتظامیہ کے لوگ موجود ہوتے ہیں جو بذاتِ خود ہراسمنٹ میں ملوث ہوتے ہیں۔ اس لیے تعلیمی اداروں یا دیگر جگہوں پر (جہاں کمیٹیاں موجود ہیں) ریپ اور ہراسمنٹ کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ یہ بس نام کی ہی کمیٹیاں ہیں۔

ہمیں ان کمیٹیوں کے مقابلے میں محنت کشوں اور طلبہ کی ایسی کمیٹیاں بنانی ہوں گی جو نہ صرف ہراسمنٹ بلکہ تمام تر مسائل کا حل تلاش کرنے اور عوام دشمن پالیسیوں کو رد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں دیگر قسم کی ذہنی و جسمانی ہراسانی کا خاتمہ تب تک ناممکن ہے جب تک طلبہ یونین بحال نہیں ہوتی اور تب تک سٹوڈنٹس کو فیسوں، ہاسٹل، ٹرانسپورٹ کے اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آخر میں اعلان کیا گیا کہ ہم 8 مارچ کو محنت کش خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے ایک تقریب کا انعقاد کریں گے اور مختلف اداروں کی محنت کش خواتین کے ساتھ مل کر اس دن کو منائیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.