بلوچستان یونیورسٹی انتظامیہ کی من مانیاں، طلبہ کے سلگتے مسائل اور آگے کا لائحہ عمل

|تحریر: عابد بلوچ|

جہاں سرمایہ دارانہ نظام بسترِ مرگ پر ہے اور اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے وہیں اسکی وحشت اور بربریت زندگی کے ہر پہلو سے اس کی خوب صورتی اور حسن چھیننے کے در پے ہے۔

تعلیم جسکا مقصد زندگی کے آداب سکھانا، مہذب بننے کا درس دینا اور اخلاقیات کے سبق پڑھانا تھا سرمایہ داری میں این منافع بخش کاروبار بن چکی اور اب سرمایہ داری کے بحران میں تعلیمی ادارے غریب طالب علموں کو ذہنی دباؤ، الجھن، پریشانیاں اور اذیت کے سوا کچھ نہیں دے رہے۔ایک طرف مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے تعلیمی اخراجات پورے نہیں ہوپاتے تو دوسری طرف ہر سال فیسوں میں بے تحاشا اضافہ، ہوسٹلز کی کمی کا مسئلہ، ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کبھی غیر ضروری اسائنمنٹ تو کبھی مہنگے مہنگے پروجیکٹز کے مطالبے، آئے روز طلبہ کیلئے تعلیم کے حصول کو مشکل بنارہے ہیں۔

بلوچستان یونیورسٹی، صوبہ بلوچستان کا سب سے قدیمی اور بڑا تعلیمی ادارہ ہے جس میں بلوچستان کے دوردراز علاقوں سے طالب علم پڑھنے کے لیے آتے ہیں۔ ملک کی دوسری جامعات کی طرح جامعہ بلوچستان میں بھی فیسوں کا اضافہ والدین اور طالبعلموں دونوں کیلئے تشویش ناک ہے۔ بلوچستان جہاں روزگار کے مواقع پہلے سے نہ ہونے کے برابر ہیں، محنت کش عوام بڑی مشکل سے اپنے بچوں کو یونیورسٹی تک بھیج پاتے ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی میں جہاں ہر طلوع ہونے والا سورج نئی مصیبت نئے جبر کا پیغام لے کر آتا ہے۔ ہر نئے دن روزگار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں اور محنت کش عوام کیلئے دو وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ محنت کش طبقے کے طلبہ کیلئے تعلیم ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ تعلیم کے شعبہ کو بالواسطہ نجکاری کی طرف لے جایا جارہا ہے اور ان اقدامات کے خلاف طلبہ آواز بھی اٹھا رہے ہیں جسکی واضح مثال خضدار یونیورسٹی کی مجوزہ و ممکنہ نجکاری کیخلاف طلبہ کا کامیاب احتجاج ہے۔

فیسوں میں اضافہ!

کرونا وباء کے بعد جب سے یونیورسٹی دوبارہ کھلی ہے تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے انتظامیہ صرف لوٹ مار کی راہ کی تلاش میں ہے کہ کیسے کچھ اضافی مال بٹورا جائے۔ فیسوں کی صورت میں اتنا مال بٹورا جا رہا ہے کہ لگتا ہے یونیورسٹی کی پہلی ترجیح تعلیم دینا نہیں پیسے کمانا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے صاف کہہ دیا ہے کہ جب تک فیس جمع نہیں ہوگی کسی کو بھی امتحان میں بیٹھنے نہیں دیا جائے گا۔ سمسٹر کو سمارٹ سمسٹر کا نام دیا گیا ہے، سمسٹر کے دورانیے کو کم کر کے دو مہینے کر دیا گیا ہے۔ ایک سال میں تین سمسٹر ہوں گے، یعنی سال میں تین بار فیس جمع کرانی ہوگی۔

کچھ طالب علموں نے اسکالر شپ پر امیدیں لگائی ہوئی ہیں کہ کوئی اسکالر شپ ملے تو فیسیں جمع کروا سکیں لیکن اسکالر شپ ملنے کا پراسس کوئی اتنا آسان اور تیز نہیں ہے کہ آج اپلائی کیا اور کل اسکالرشپ مل جائے۔ اسکے لئے بھی طلبہ کو بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اسکالر شپس ویسے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر کچھ اسکالر شپس کے علان کر بھی دیے گئے تو اتنی جلدی انکی وصولی نہیں ہو پائے گی، اس سارے پراسس میں کم سے کم چھ ماہ درکار ہوتے ہیں۔ اور ان کی بڑی تعداد سیاست دانوں اور انکے چمچوں کے بچوں کو بغیر کسی محنت کے مل جاتی ہے۔ سرکاری اداروں میں مہنگی تعلیم اور ان اداروں کی نجکاری محنت کش گھرانوں کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے دور رکھنے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے، جس کے خلاف ہم ملک بھر میں انتہائی منظم انداز میں جدوجہد کر رہے ہیں۔

ہاسٹلز کا مسئلہ!

دور دراز کے طلبہ کیلئے ہاسٹلز کی تعداد نا کافی ہے جس کی وجہ سے طلبہ کی بڑی تعداد کو پرائیویٹ ہاسٹلز میں رہنا پڑتا ہے اور اس مد میں ان کو اضافی خرچے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ لوٹ مار انتظامیہ کی جانب سے اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ طالب علموں سے اب کیمپس میں پارکنگ کے نام پر بھی پیسے وصول کیے جا رہے ہیں۔ وہیں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ موجود ہے۔ کیا طالب علموں کو یونیورسٹی تک ٹرانسپورٹ فراہم کرنا انتظامیہ کی ذمہ داری نہیں ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ مفت ٹرانسپورٹ طلبہ کا حق ہے اور اگر ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں ہے تو انتظامیہ بندوبست کرے لیکن بلوچستان یونیورسٹی میں بسوں کو ایک لائن میں نمائش کے طور پر کھڑا کیا گیا ہے۔ انتظامیہ صرف پیٹر ول کے پیسے ہڑپنے کے لیے ان بسوں کو چلانے سے انکاری ہے اور طلبہ کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ رکشے کے اضافی پیسے خرچ کریں، لوکل بسوں میں دھکے کھائیں اور اگر اپنی سواری پر آئیں تو پارکنگ کے پیسے بھی دیں۔

اسی طرح وہ طلبہ جن کو کسی طرح ہاسٹل مل بھی جاتا ہے ان کیلئے بھی بہت سارے مسائل موجود ہیں۔ طلبہ غیرمعیاری کھانا کھانے پر مجبور ہیں جسکی کی قیمت ہر گرزتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے لیکن اب لاک ڈاؤن کے بعد جب سے یونیورسٹی کھلی ہے ہاسٹل کا میس ہی سرے سے بند ہے۔ طلبہ کو باہر ہوٹلوں پر جا کر کھانا کھانا پڑتا ہے۔ ہوٹلوں سے ملنے والا مہنگا اور غیر معیاری کھانا طلبہ کیلئے صحت کے مسائل بھی پیدا کر رہا ہے۔یونیورسٹی کینٹینوں کا کھانا تو کسی طور بھی کھانے کے لائق نہیں ہے ان کو تو ایک بار فوڈ اتھارٹی نے ناقص اور غیر معیاری کھانے کی اشیا فروخت کرنے پر تنبیہہ بھی کی ہے لیکن شاید فوڈ اتھارٹی والوں کو کچھ معیاری کھلا کر خوش کر دیا گیا ہے۔

ہاسٹلز میں صفائی کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا، واش روم اتنے گندے ہوتے ہیں کہ استعمال کرنے پر طلبہ ذہنی کوفت میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ سردیوں میں گرم پانی نہیں ہے حالانکہ ہاسٹل کی فیس میں ان ساری سہولیات کے پیسے لئے جاتے ہیں اور انتظامیہ ہر بار فیس بڑھانے کے لیے بیتاب ہوتی ہے لیکن اس سے دگنی رفتار سے ہوسٹل کی ضرورتیں اور سہولیات دن بدن کم ہوتی جا رہی ہیں۔جامعہ کی صفائی پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ جنگلی پودوں اور جھاڑیوں سے ڈھکا ہوا یہ ویرانہ ایک یونیورسٹی کا منظر ہی پیش نہیں کرتا۔پچھلے برس کے ہراسمنٹ کے واقعے سے پہلے تو پوری یونیورسٹی جھاڑیوں میں ڈھکی ہوئی تھی اب کچھ صفائی اور کافی جگہوں پر سبزہ لگایا گیا ہے۔ یہ سب اقدامات ہراسمنٹ کے واقع کے بعد کیے گئے ہیں۔ گو ہم سمجھتے ہیں کہ کیمپس میں جھاڑیوں کو صاف کرکے ایک خوبصورت شکل دی جائے لیکن انتظامیہ کی جانب سے ان جھاڑیوں کو ہی ہراسمنٹ کے واقعات کی وجہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو کہ محض بکواس اور بھونڈا مذاق ہے۔ ہراسمنٹ کے حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ سمیت تمام طلبہ کو پتہ ہے کہ ہراسمنٹ کے واقعات کہاں پیش آتے ہیں اور کون اس میں ملوث ہے۔ ان تمام تر بکواسیات کا مقصد یہ دکھانے کی کوشش ہے کہ ہراسمنٹ کے واقعات میں یونیورسٹی انتظامیہ ملوث نہیں ہے بلکہ وہ ان تمام تر جرائم کی ذمہ داری طلبہ پر عائد کرتے ہیں کیونکہ یونیورسٹی کے تمام تر سبزہ زا روں میں طلبہ ہی بیٹھتے ہیں۔ جس کو ہم مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ ہراسمنٹ کے واقعات میں ملوث یونیورسٹی انتظامیہ کے بڑے بڑے افسران اب تک اپنے عہدوں پر نہ صرف براجمان ہیں بلکہ وہ ان تمام تر واقعات سے بری الذمہ بھی ہو چکے ہیں۔ ہم نے اس وقت بھی یہ مطالبہ کیا تھا اور اب بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ہراسمنٹ کے واقعات کو روکنے کے لیے اور ان یونیورسٹی سکینڈل میں ملوث تمام تر ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے طلبہ کی منتخب کمیٹیاں بنائی جائیں جس میں تمام تر متاثرہ طلبہ بھی شامل ہوں تا کہ کوئی بھی ملزم اپنے انجام سے بچ نہ سکے۔

چھاؤنی کا منظر پیش کرتی یونیورسٹی!

جامعہ کے مسائل میں ایک سنگین مسئلہ یہ بھی ہے کہ یونیورسٹی کو ایک چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یونیورسٹی یونیورسٹی کم کوئی فوج قلعہ ذیادہ لگتا ہے۔ سپاہی ہر وقت بندوق تھامے ہوئے کھڑے ہیں جیسے انہوں نے یونیورسٹی کو فتح کیا ہو۔ ہم سمجھتے ہیں اس سب کا واحد مقصد طلبہ کو خوفزدہ رکھنا ہے اور سوال کرتے ہیں کہ طالب علم اس خوف و ہراس کے ماحول میں اور بندوق کی نوک پر کیسے پڑھیں گے؟ ان کی یہی کوشش ہے بلوچستان یونیورسٹی جو طلبہ سیاست کا گڑھ ہوا کرتی تھی یہاں سیاسی کلچر کو پروان نہ چڑھنے دیا جائے۔ یونیورسٹی میں سیکیورٹی کو بڑا مسئلہ بنا کر سیکیورٹی فورسز کے مسلح اہلکاروں کو ہاسٹلز اور سپورٹس کمپلیکس سونپ دیئے گئے ہیں۔ یونیورسٹی میں ایک ایسے ماحول کو جنم دیا ہے جہاں پر طلبہ ان کی موجودگی کی وجہ سے عدم تحفظ کے شکار رہتے ہیں۔

آگے کا لا ئحہ عمل!

ہم سمجھتے ہیں ان مسئلوں کا حل صرف طلبہ سیاست سے ہی ممکن ہے۔ طلبہ کو اپنے مسائل کے  حل کےلیے خود منظم ہوکر عمل کے میدان میں اترنا ہوگا اور طلبہ یونین کی بحالی سے ہی طلبہ کو وہ پلیٹ فارم ملے گا جہاں وہ اپنے حق کی لڑائی لڑ کر جیت سکتے ہیں۔ اب پورے ملک کے طلبہ سیاسی طور پر جاگ رہے ہیں اورپورے ملک میں اس وقت مختلف مسائل کے خلاف طلبہ برسرِاحتجاج ہیں۔

اس ضمن میں ہم پروگریسو یوتھ الائنس کے پلیٹ فارم پر ملک گیر طلبہ کی ایکتا کو ممکن بنانے کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں، اور ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ کو اپنے تمام تر مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لیے تمام تر مصنوعی تضادات، تفرقات اور تعصبات سے بالاتر ہوکر متحد ہونا ہوگا۔ اپنے سب سے بنیادی و جمہوری حق طلبہ یونین کی بحالی کے لیے ان کو میدانِ سیاست میں اترنا ہوگا۔

اس وقت ملک بھر میں طلبہ نے آن کیمپس امتحانات کے خلاف مختلف احتجاجوں کے ذریعے اپنی طاقت کا لوہا منوایا ہے، جس کے ذریعہ انہوں نے ملک بھر کے حکمران طبقے کو یہ پیغام دیا ہے کہ اب وہ اس طرح کے استحصال کے خلاف خاموش نہیں رہیں گے۔اس کے علاوہ اس وقت ملک بھر میں محنت کش طبقے کی تحریک بھی ایک نئی اٹھان لے رہی ہے جس سے یہ دونوں احتجاجی تحریکیں ایک دوسرے کو شکتی اور حوصلہ دیں گی۔ مگر ایک منظم لڑائی لڑنے کے لیے طلبہ کو منظم ہونا ہوگا اور ایک ایسے پلیٹ فارم کا انتخاب کرنا ہوگا جہاں پر ان کے تمام تر مسائل کو ایک جدید سائنسی نظریات اور پروگرام کے ساتھ آگے لے جایا جا سکے۔ اس سلسلے میں ہم تمام طلبہ سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ آئیں اور پروگریسو یوتھ الائنس کا حصہ بن کر نہ صرف مفت اور معیاری تعلیم حاصل کرنے کے لیے بلکہ تعلیم کے بعد روزگار کے حصول کیلئے اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی اور غیر طبقاتی سماج کے قیام تک جدوجہد میں شامل ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.