کراچی یونیورسٹی میں ہراسمنٹ کے بڑھتے واقعات اور ان کا حل

|تحریر: آنند، زینب|

یونیورسٹیاں جن کو تعلیم اور نوجوانوں کی ذہنی نشوونما کا مرکز کہا جاتا ہے، آج استحصال، جنسی تشدد، منافع خوری اور ظلم کے مراکز بن چکی ہیں۔ ویسے تو پورا سماج ہی گل سڑ رہا ہے اور زیادتی و ہراسمنٹ کے واقعات بڑھ رہے ہیں وہیں خاص کر تعلیمی اداروں میں دن بدِن ہراسمنٹ کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے گو ان میں سے اکثر رپورٹ نہیں ہوتے۔ ایسا ہی ایک ہراسمنٹ کا واقعہ کراچی یونیورسٹی میں پیش آیا۔

5اکتوبر کو جامعہ کراچی میں جنسی ہراسانی کا ایک اور کیس سامنے آیا۔ شہیر نامی طالب علم نے سوشل میڈیا پر ایک سنگین واقعہ شیئر کیا ہے جو اس کے اور اس کی دوست کے ساتھ پیش آیا تھا۔ طالب علم اپنی ایک طالبہ ساتھی کو (کراچی یونیورسٹی کے ساتھ) آئی بی اے ہاسٹل میں چھوڑنے یونیورسٹی کے احاطے میں سے گزرتے ہوئے جا رہا تھا تبھی موٹر سائیکلوں پر سوار 10 سے زیادہ نوجوانوں نے ان کو گھیر لیا اور لڑکی کو ہراساں کیا، خوش قسمتی سے طالبہ گاڑی میں تھی جس کے باعث وہ سنگیں قسم کی صورتِ حال سے بچ گئے مگر ہراساں کرنے والوں نے ان کی گاڑی کا تعاقب کیا اور لڑکی کو ان کے حوالے کرنے پر زور دیا اور مسلسل تعاقب کرتے رہے۔

اس ہولناک واقعے نے یونیورسٹی میں جنسی ہراسمنٹ کے سنگین مسئلے پر بحث چھیڑ دی ہے۔ وہیں یہ بحث بھی زور پکڑ رہی ہے کہ ایک رینجرز زدہ چھاؤنی نما کیمپس میں جہاں بوائز ہاسٹل تک موجود ہی نہیں ایسے اوباش لونڈے کیسے آ گئے؟ سوشل میڈیا پر ہونے والی بحثوں سے صاف ظاہر ہے کہ کراچی یونیورسٹی ہراسمنٹ کا گڑھ بن چکی ہے، پسماندہ اقدار اور معاشی زنجیروں کے باعث پہلے ہی پاکستان میں خواتین کی تعلیم تک رسائی مشکل ہے اور کسی طرح اگر یونیورسٹی تک رسائی مل جائے تو ادارے میں بیٹھی انتظامیہ، رینجرز اہلکار، اور اساتذہ بھیڑیوں کے مانند طالبات کا جنسی استحصال کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔

کراچی یونیورسٹی جہاں 42000سے زیادہ طلبہ پڑھتے ہیں ان میں 50 فیصد لڑکیاں ہیں جو اس واقعے کے بعد مکمل طور پر خوف زدہ ہیں اور خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہیں۔ بالخصوص وہ جو ہاسٹل میں رہتی ہیں اور جن کی کلاسز شام میں ہوتی ہیں ان طالبات میں شدید خوف پایا جا رہا ہے۔ عام طور پر جب طالبات اپنے ساتھ ہونے والے جنسی ہراسانی کے واقعات کو سامنے لاتی ہیں تو ایک طرف تو سکینڈل اور بدنامی کے خوف کی وجہ سے ٹیڑھی انتظامیہ متاثرین کو خاموش کرنے کو ترجیح دیتی ہے، تاکہ وہ ادارے کی ساکھ اور منافع خوری پر اثر انداز نہ ہوں اور دوسرا اکثر جنسی ہراسانی کے واقعات میں یونیورسٹی انتظامیہ خود ملوّث نظر آتی ہے۔

یوں تو کراچی یونیورسٹی کو سیکیورٹی کے نام پر فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا ہے، اور ہر وقت رینجرز کے مسلح جتھے کیمپس میں گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر رینجرز کی موجوگی میں اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا صاف ظاہر کرتا ہے کہ ان سیکیورٹی اداروں کا مقصد طلبہ کا تحفظ نہیں بلکہ طلبہ میں خوف پیدا کرنا ہے تاکہ وہ اپنے حقیقی مسائل پر آواز نہ اٹھا سکیں۔ جب بھی کسی ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے تویونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے جبر کی اس مشینری کو استعمال کرتے ہوئے طلبہ کو خاموش کروانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نام نہاد طلبہ تنظیموں کو انتظامیہ کی پشت پناہی سے استعمال کر کے طلبہ کو لسانیت، علاقائیت اور مذہب کے نام پر طلبہ یکجتی کو توڑا جاتا ہے، یہ طلبہ تنظیمیں رجعت پسند خیالات، مذہبی جنونیت، ہتھیاروں کی ثقافت، اور منشیات کے فروغ پر انحصار کرتی ہیں، اور ہمیشہ عام طلبہ کی اپنے حقوق کی لڑائی میں انتظامیہ کی دلالی کرتے ہوئے پائی جاتی ہیں۔

جنسی ہراسانی اس وقت پورے پاکستان کے تعلیمی اداروں کا سلگتا ہوا مسئلہ ہے، بلوچستان یونیورسٹی میں بے نقاب ہونے والا بھیانک سکینڈل محض ایک ادارے کا حال بیان کرتا ہے اسی طرح کی صورتِ حال تمام اداروں کی ہے۔ جنسی ہراسانی کے واقعات کے خلاف کمیٹیاں بنا دینا اور ان کمیٹیوں میں انہی لوگوں کو شریک کرنا جو بذاتِ خود ملوّث ہوں، ایک بھونڈا مذاق ہے۔ ہم ان لوگوں سے انصاف کی توقع کیسے کر سکتے ہیں جو خود اس مذموم فعل میں شریک پائے جاتے ہیں؟ اس کا واضح ثبوت بلوچستان ہونیورسٹی کا سکینڈل ہے جہاں مسئلے کی جڑ کا سدباب کرنے اور تمام مجرمان کو کڑی سزا دینے کی بجائے صرف ایک گارڈ ایک ایڈمن افسر کو قربانی کا بکرا بنا کر باقی سب کو بچا لیا گیا ہے۔

طلبہ کو تشدد اور استحصال اور طلبہ دشمن اقدامات اور قوتوں سے نجات صرف اور صرف طلبہ یونین کے ذریعے مل سکتی ہے۔ جنسی ہراسانی کے خلاف طلبہ پر مشتمل کمیٹیاں ہی اصل تحقیقات کر سکتی ہیں، طلبہ کی جمہوری ڈیفینس کمیٹیاں ہی کیمپسز کا تحفظ کرنے کے قابل ہیں۔ اس وقت ملک کے طول و عرض میں طلبہ اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج ہیں، فیسوں میں مسلسل اضافہ، بِنا سہولیات کے آن لائن کلاسز، ہاسٹلز کی بندش و دیگر مسائل کے گرد طلبہ تحریک بننے کا عمل شروع ہو چکا ہے، ہم سمجھتے ہیں جنسی ہراسانی کو ان تمام مسائل سے جوڑتے ہوئے طلبہ یونین کی بحالی کے لیے جدوجہد کا آغاز ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے۔ طلبہ یونین کیمپسز کے طلبہ کی جمہوری طور پر منتخب نمائندہ باڈی ہو گی، جس کے پاس نہ صرف انتظامیہ کے احتساب کا اختیار ہو گا بلکہ انتظامی معاملات میں طلبہ کی بھرپور شرکت بھی ہو گی۔ اس حوالے سے پروگریسو یوتھ الائنس نے کراچی یونیورسٹی میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے اور ہم جلد کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کے پاس طلبہ کے مسائل کے حل اور طلبہ یونین کی بحالی کا انقلابی پیغام لے کر جائیں گے۔ ہم ایک بار پھر کراچی یونیورسٹی میں ہونے والے واقعہ کی مذمت کرتے ہیں اور پروگریسو یوتھ الائنس کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کے ہر حق کی لڑائی میں ان کے ساتھ کھڑا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.