پاکستان میڈیکل کمیشن کی نااہلی اور طلبہ کا داؤ پر لگا مستقبل

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس،بلوچستان|

پاکستان میں موجود بوسیدہ تعلیمی نظام اور پسماندہ طرزِ تعلیم مسلسل زوال پذیر ہوتے ہوئے زمین بوس ہونے کی طرف جا رہا ہے۔یہاں پر تعلیم عام محنت کشوں کے بچوں کے لئے ایک خواب بنتا جا رہا ہے اور مسلسل سرکاری تعلیمی اداروں کی جانب سے مہیا کی جانے والی لولی لنگڑی تعلیم کو ختم کرتے ہوئے ان تعلیمی اداروں کو نجکاری کی طرف لے جانے کی کوششیں مسلسل تیز ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں دیگر تمام شعبوں کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے۔انہیں شعبوں میں ایک اہم میڈیکل کا شعبہ اپنی تاریخ کی سب سے بدتر صورتحال سے دوچار ہے۔

اکتوبر 2019ء کو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے PMDC کو ختم کرتے ہوئے اس کی جگہ پاکستان میڈیکل کمیشن (PMC) بنایا گیا جس کا مقصد میڈیکل کالجز اور اس شعبے کی نجکاری کی راہ ہموار کرنا تھا۔ میڈیکل کالجز کو فیسیں بڑھانے کی مکمل چھوٹ دی گئی۔ اس فیصلے کو ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے بھی مکمل طور پر رد کرتے ہوئے غیر جمہوری قرار دیا تھا اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے میڈیکل کے طلبہ کے ساتھ فریب اور صحت کے نظام کو نجی مالکان اور حکومتی شخصیات کو منافعوں سے نوازنے کے مترادف قرار دیا۔ اس ادارے نے تمام تر معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے میڈیکل ایڈمیشن پالیسی بھی مرتب کی جس کی بنیاد پر پورے پاکستان کے میڈیکل کالجز کا داخلہ ٹیسٹ PMC خود ہی عمل میں لائے گی اور مسلسل دو سالوں سے یہ ادارہ اپنے تمام تر معاملات کو چلانے میں ناکام اور سنگین بے ضابطگیوں کا مرتکب ہو رہا ہے جس سے میڈیکل کے طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔ حالیہ 2021 MDCAT کا اعلان بھی ایک ایسے وقت میں ہوا جب طلبہ کے FS.c کے رزلٹ کا ابھی تک اعلان نہیں ہوا۔ PMC کی اپنی پالیسی ہے کہ MDCAT رزلٹ آنے کے تین سے چار مہینے کے بعد منعقد ہوگا۔یہ اپنی ہی پالیسی کی خلاف ورزی ہے اور طلبہ کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے۔ ٹیسٹ کی درخواستیں جمع کروانے کے لئے داخلہ فیس اور ٹیسٹ اخراجات کے نام پر طلبہ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہوئے پانچ پانچ ہزار کی بھاری رقم وصول کی گئی جو کہ پاکستان میں موجود اکثریتی محنت کش طبقے کے لئے ادا کرنا انتہائی مشکل ہے لیکن اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر والدین کو یہ بھاری اخراجات برداشت کرنا ہی پڑے۔

پاکستان کے حکمران طبقے کی تاریخی پسماندگی کی وجہ سے یہاں کبھی جدید تعلیمی نظام اور انفراسٹرکچر وجود میں ہی نہیں آسکا۔ اس دوران سماجی اور ٹھوس زمینی حقائق سے مترادف آن لائن سسٹم کو بھی پچھلے عرصے میں یہاں متعارف کرایا گیا جس کا نتیجہ ہم نے آن لائن کلاسز کی صورت میں طالب علموں کے ساتھ فراڈ، دھوکے اور وقت کے ضیائع کی شکل میں دیکھا۔ PMC نے بھی اپنے داخلہ ٹیسٹ کو آن لائن سسٹم کے ذریعے عمل میں لانے کا اعلان کیا اور ساتھ میں یہ بھی اعلان کیا کہ یہ ٹیسٹ مسلسل ایک مہینہ جاری رہیگا جو کہ اگست سے لیکر ستمبر کے اخر تک منعقد کیا جائے گا۔ طلبہ آنکھوں میں کامیاب اور روشن مستقبل کے خواب سجائے کئی کئی سالوں اور مہینوں سے ان لوٹیروں اور تعلیم دشمن عناصر کی غنڈہ گردی، جہالت اور پسماندگی سے نا واقف اپنی تیاریوں میں مصرف تھے۔آج جب مسلسل اٹھارہ دن سے یہ تماشا جاری ہے تو ایک حیران کن اور انتہائی افسوس ناک صورتحال نے اس ادارے کے خصی پن اور بے ضابطگیوں کو عیاں کر دیا ہے۔ اگر صرف بلوچستان کی بات کی جائے تو یہاں بارہ لاکھ بچے سکولوں سے باہر محنت مشقت کرنے پر مجبور ہیں اور تعلیم ایک خواہش بن کر ہوا میں اڑ رہی ہے۔ جہاں عوام پینے کو صاف پانی اور دو وقت کی روٹی ترس رہے ہیں۔ جہاں کے اکثریتی اضلاع میں اکیسویں صدی کے اس دور میں بھی موبائل سگنلز نہیں پہنچ پائے ہیں وہاں انٹرنیٹ کا نام لینا بھی ایک اچنبھے کی بات لگتی ہے۔

دوسری جانب اپنے اس نام نہاد آن لائن ٹیسٹ کے ذریعے تمام تر شرمناک ٹیکنیکل ایشوز کے ساتھ طلبہ سے ٹیسٹ لینا قابل مذمت اور قابل نفرت ہے۔ طالب علم اگر وقتی طور پہ کوئی سوال چھوڑ دے تو وہ سوال دوبارہ سکرین پر نہیں آسکتا۔ دوسری جانب ٹیسٹ کے دوران ہی انٹرنیٹ سگنل چلے جاتے ہیں اور طلبہ جب دوران ٹیسٹ وجہ پوچھتے ہیں تو یہ بھیڑیے انہیں یہ کہہ کر چپ کروا دیتے ہیں کہ اپ لوگ اپنا ٹیسٹ جاری رکھیں اگر سگنل نہیں بھی ہوتے تو آپکا سوال حل ہوگا۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آن لائن سسٹم میں اگر اپکے پاس انٹرنیٹ کنیکشن نہ ہو تو اپکا پورا عمل رک جاتا ہے۔ لیکن ٹیسٹ کے دوران طلبہ سوالات کو حل کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور یہ تمام سوالات ضائع ہی شمار ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ کے ایک گھنٹے بعد رزلٹ بھیج دیا جاتا ہے جسکی نہ کوئی AnswerKey ہوتی ہے اورنہ ہی کوئی واضح طریقہ کار جس سے نشاندہی ہوسکے کہ یہ رزلٹ مخصوص طالب علم کا ہے۔ PMC کی ان تمام تر بے ضابطگیوں کے خلاف طلبہ مسلسل اپنے تحفظات کا اظہار کر رہے تھے اور پچھلے ایک ہفتے سے باقاعدہ پورے پاکستان میں ایک تحریک کی شکل میں اپنے حقوق کے لئے اور ان بے ضابطگیوں کیخلاف سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں جن کے بنیادی مطالبات یہی ہیں کہ PMC کو منسوخ کرتے ہوئے دوبارہ ٹیسٹ کا انعقاد کیا جائے اور پرانے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے فیزیکل ٹیسٹ منعقد کیے جائیں کیونکہ اس نام نہاد آن لائن ٹیسٹ میں بدعنوانیوں کا خدشہ بھی موجود ہے اور جہاں سوالات کے جوابات ہی غلط دیے گئے ہوتے ہیں اور بعد میں AnswerKey نہ ہونے کی وجہ سے اپنے جوابات کا پتہ ہی نہیں ہوتا اور کچھ سوالات سلیبس میں موجود ہی نہیں۔

اسلام آباد،لاہور سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں طلبہ نے PMC کیخلاف اپنے احتجاج ریکارڈ کروائے ہیں۔ کوئٹہ میں بھی روزانہ کی بنیاد پر پریس کلب کے سامنے یہ احتجاجی مظاہرہ ہوتا ہے۔ پندرہ ستمبر کو پورے پاکستان میں گرینڈ احتجاج کے نام سے ان مظاہروں کو منظم کیا گیا اور تیئس ستمبر کو دوبارہ پورے پاکستان میں ایک ہی دن مظاہروں کی کال دی گئی ہے۔ دوسری جانب ریاست اپنے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے طلبہ کو اپنے حقوق اور مزاحمت سے روکنے کے لئے دباؤ ڈالنے کی بھی کوشش کر رہی ہے اور آٹھ ستمبر کو کوئٹہ میں انہیں طلبہ کو شدید لاٹھی چارج اور تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گرفتار کیا گیا۔

اسلام آباد،لاہور سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں طلبہ نے PMC کیخلاف اپنے احتجاج ریکارڈ کروائے ہیں۔ کوئٹہ میں بھی روزانہ کی بنیاد پر پریس کلب کے سامنے یہ احتجاجی مظاہرہ ہوتا ہے۔

پروگریسو یوتھ الائنس طلبہ کے ان تمام مطالبات کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور ریاست کی غنڈہ گردی کی پرزور مذمت کرتے ہوئے یہ واضح کرتا ہے کہ طلبہ اور عوام جب بھی اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے ہیں تو ریاست کا عمومی رویہ عوام اور طالب علموں کی جانب تشدد، لاٹھیاں برسانا اور اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کے لئے ڈرانا دھمکانا ہوتا ہے اور ریاست کے وجود کا بنیادی مقصد ہی ان اداروں اور ان کے سربراہان کو تحفظ دینا ہوتا ہے کہ یہ لوگ عوام اور طالب علموں کو لوٹتے رہیں اور انکا استحصال جاری رکھ سکیں۔ PMC کے قیام کا مقصد ہی لوٹ مار کرنا اور میڈیکل شعبے سے منسلک ڈاکٹرز اور طالب علموں کے مستقبل کو داؤ پر لگانا ہے اور اس ادارے کی بنیاد پر نجی میڈیکل کالجز کے مالکوں کو منافع کمانے کی مکمل چھوٹ دینا ہے۔پاکستان میں PMC کیخلاف اس احتجاجی تحریک کو منظم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پورے پاکستان کے طلبہ اپنے مطالبات کو مزاحمت کے ذریعے منوانے میں کامیاب ہوسکیں۔ بلوچستان میں جاری اس احتجاج کو اپنے حدود سے نکلنے کی ضرورت ہے کہ جہاں پورے صوبے میں PMC کا نمائندہ موجود نہیں ہے تو ہمیں حکومتی کمیٹیوں کے اس کھیل کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے اپنے اور اس احتجاج کو میٹرو حال منتقل کرتے ہوئے اس ٹیسٹ کا مکمل بائیکاٹ کرنا ہوگا اور PMC کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہوگا اور ساتھ میں یہ مطالبہ کرنا ہوگا کہ PMC کا خاتمہ کرتے ہوئے PMDC کو دوبارہ بحال کیا جائے تاکہ میڈیکل کے طلبہ کے مستقبل کو بچاتے ہوئے طب کے شعبے کی نجکاری کا عمل بھی روک کر اسے برباد ہونے سے بچایا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.