کیا سوشلزم کا تجربہ ناکام ہو چکا ہے؟

| تحریر: مارکسسٹ سٹوڈنٹس فیڈریشن، ترجمہ:ہلال|

البرٹ آئن سٹائن کا مشہور قول ہے کہ ”ایک ہی چیز کو بار بار دہرانا اور مختلف نتائج کی توقع رکھنا پاگل پن ہے“۔اگر سوشلزم کو آزمایا گیا ہے اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ ناکام ہوچکا ہے تو پھر یہ مارکس وادی کیوں ابھی بھی سوشلزم کے نفاذ کے لئے لڑ رہے ہیں؟اس کا جواب جاننے کے لئے ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ سوویت یونین اور خود کو سوشلسٹ کہنے والے دوسرے ملکوں میں ہوا کیا تھا۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

1917ء میں روس کے محنت کش طبقے نے ایک عوامی انقلابی تحریک کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا۔ معیشت کو سرمایہ داروں اور زمینداروں کے چنگل سے آزاد کروا کر سماج کو محنت کشوں اور غریب کسانوں کی کمیٹیوں (جنہیں سوویت کہا جاتا تھا) کے جمہوری اختیار کے تحت چلایا گیا۔ ایسے اقدامات سرمایہ دارانہ نظام سے سوشلزم کی طرف منتقلی کے آغاز کا اظہار تھے۔

تاہم لینن،ٹراٹسکی اور بالشویکوں (انقلاب کی قیادت کرنے والی بالشویک پارٹی کے ممبران)کا کبھی بھی یہ ماننا نہیں رہا کہ ”سوشلزم کی تعمیر ایک ملک میں“ ممکن ہو سکتی ہے بلکہ اس کے برعکس انہوں نے روس کے انقلاب کو عالمی سوشلسٹ انقلاب کے لیے مہمیز کے طور پر دیکھا۔جیسے سرمایہ داری ایک عالمگیر نظام ہے،سوشلزم کو بھی لازماً عالمگیر نظام ہونا چاہیے۔

یہ جلد ہی عملی میدان میں درست ثابت ہوا جب پورے یورپ میں بشمول جرمنی، آسٹریا، ہنگری، اٹلی، فرانس،سپین اور حتی کہ برطانیہ میں انقلابات ہوئے یا انقلابی صورتحال بن گئی۔

ان ملکوں میں محنت کش طبقے کی اقتدار پر قبضے میں ناکامی کا سبب یہ نہیں تھا کہ ان میں قوت ارادی کی کمی تھی۔اس تاریخی فریضے کو انجام دینے میں ناکام ہونے کی وجہ ایک انقلابی پارٹی کا فقدان تھا،جو اس قابل ہوتی کہ عوام کی ساری توانائی کو اقتدار پر قبضے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

چنانچہ روس کا انقلاب تنہائی کا شکار ہوگیا۔بجائے اس کے کہ روس کے بے تحاشہ زخائر کو یورپ کی ترقی یافتہ صنعت سے جوڑا جاتا، روس کی معیشت کئی سال جاری رہنی والی جنگ کے بعد بکھر گئی۔

بحیثیت مارکس وادی ہم سمجھتے ہیں کہ غربت، بے روزگاری، بھوک، اور ان جیسی دیگر لعنتوں سے آزاد سماج کو قائم کرنے کی صلاحیت کا تعین بالآخر پیداواری قوتوں (صنعت و حرفت، زراعت، سائنس) کی ترقی کی سطح اور اس کے ساتھ ساتھ ان پر ملکیت اور قبضے سے ہی ہوتا ہے۔

مارکس نے خود اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ”پیداواری قوتوں کی ترقی ہی سوشلزم کے قیام کے لیے انتہائی عملی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر طلب معمول بن جاتی ہے اور طلب کے عام ہونے سے ضرورتوں کو پورا کرنے کی کشمکش پھر سے شروع ہوجاتی ہے جس کا مطلب ہے کہ پرانی غلاظت کا دوبارہ احیاء ہونا“(یعنی کہ سرمایہ دارانہ ذہنیت کا سماج میں دوبارہ پنپنا)۔

روس کو 1920ء کی دہائی  کے اوائل میں کئی سال جاری رہنی والی تباہ کن جنگ کے بعد بہت بڑا صنعتی اور زرعی نقصان اٹھانا پڑا۔ یقیناً روس میں اس کے نتیجے میں طلب معمول بن گئی تھی۔جب لاکھوں محنت کش سالہاسال کی جدوجہد کے دوران یا تو مرگئے اور جو رہ گئے وہ اتنے تھک گئے کہ سوویتوں میں انکی شمولیت سکڑتی چلی گئی تو انہیں حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افسر شاہی کی ایک مراعت یافتہ پرت نے اختیار سمیٹنا شروع کیا۔

1920ء میں ہی ریاستی اہلکاروں اور افسران کی تعداد چھ لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پرانے زار شاہی دور کی مراعت یافتہ پرتوں سے تھا اور انہیں کی نمائندگی کرتے ہوئے سٹالن اقتدار میں آیا۔

اس لیے سٹالن کی مطلق العنان آمریت ضروری تھی ان افسروں کی حکمرانی قائم رکھنے کے لئے اور اکتوبر انقلاب کی روایات سے جان خلاصی کے لئے۔اس کے ساتھ ہی پرانے بالشویکوں کا قلع قمع کرکے مزدور جمہوریت کا خاتمہ کر دیا گیا۔

محنت کشوں کی سماج کو چلانے اور اس کے لئے منصوبہ بندی کرنے میں جمہوری شرکت کے بغیر روس کی معیشت افسر شاہی کی بدانتظامی اور ضیاع کے باعث دم توڑتی گئی۔

سوویت معیشت کے جمود کو جواز بنا کر اسی افسر شاہی کی ایک پرت نے 1990کی دہائی میں سرمایہ داری کو دوبارہ بحال کیا (اور خود ارب پتی بن گئے) جس کی پیشین گوئی دہائیوں پہلے ٹراٹسکی نے اپنی کتاب ”انقلاب سے غداری“ میں کی تھی۔سٹالنسٹ افسر شاہی کی ہولناکیوں کے باوجود، جن کی کوئی بھی حقیقی مارکس وادی حمایت نہیں کرتا، سرمایہ داری کا یوں دوبارہ بحال ہونا محنت کش طبقے کے لیے بہت بڑا نقصان تھا۔

آج محنت کش طبقے پر جو ذمہ داری ہے وہ حقیقی سوشلزم کے لئے لڑنا ہے نہ کہ سٹالنسٹ حکومتوں کے مسخ شدہ اور خام نظریات کے لئے۔یہ سٹالنزم ہی تھا جو بالآخر ناکام ہوگیا نہ کہ سوشلزم۔

مارکس وادیوں کے نزدیک مزدور جمہوریت ایک سوشلسٹ ریاست کا ناگزیر حصہ ہے۔اور سب سے اہم چیز اس تجربے سے یہ سیکھنا ہے کہ سوشلزم کی تعمیر ایک ملک میں ممکن ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بین الاقوامیت پسند ہیں اور ہم صرف برطانیہ (اس سے مراد پاکستان بھی لیا جاسکتا ہے مگر ترجمہ ہونے کے سبب یہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا:مترجم) میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں سوشلزم کے قیام کے لئے لڑ رہے ہیں۔یہ وہ سوشلزم ہے جن کے لئے ہم علی الاعلان برسر پیکار ہیں اور جو جدید عہد کی حقیقی ناکامی یعنی سرمایہ داری کا یکسر خاتمہ کرے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.