تعلیمی اداروں کی داخلوں کی مد میں جاری لوٹ مار

|تحریر: فرحا ناز|

ہر سال کی طرح اس سال بھی مملکت خداداد، پاکستان میں طلبہ کے مستقبل سے کھیلنے اور غریب عوام کا جس قدر ممکن ہو خون نچوڑنے کا عمل تیزی سے جاری ہے اور اس دوڑ میں ملک کے نجی تعلیمی ادارے صف اوّل میں نمایاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ جہاں طلبہ کے مستقبل کی فکر سے زیادہ اس بات پر توجہ دی جاتی ہے کہ ان سے کس طرح زیادہ سے زیادہ پیسے بٹورے جائیں۔ ویسے تو جامعات میں داخلے سے لے کر ڈگری کے مکمل ہونے تک اور اس کے بعد نوکری کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانے تک غریب عوام کو مختلف اخراجات کی صورت میں بھتہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی جامعہ میں ہونے والے داخلہ کے لیے درکار داخلہ فارم، داخلے کے بعد دیگر اخراجات مثلاً جامعہ کی فیس، ٹرانسپورٹ فیس، لائبریری فنڈ، مختلف لیبارٹری فنڈز وغیرہ کی مد میں بھتہ وصولی ہوتی ہے۔ بات صرف یہاں ہی ختم نہیں ہوتی اس کے بعد نوکری کے حصول کے لیے بیشتر جگہوں پر دی جانے والی درخواستوں کی مد میں وصول کیے جانے والا بھتہ بھی حکمران طبقے کے پیٹ کی دوزخ کا ایندھن بنتا ہے۔

انسان اشرف المخلوقات ہے کیونکہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ اپنے ارد گرد ہونے والے حالات و واقعات کو نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ ان سے مختلف نتائج بھی اخذ کرتا ہے۔ زیرِ بحث موضوع پر اگر ذرا سوچ بچار کی جائے تو اس بات کا تعین کرنے میں ذرہ برابر بھی دقت محسوس کیے بغیر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارا موجودہ تعلیمی نظام اور ادارے لوٹ مار کی فیکٹریوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔

اس سب لوٹ مار کی شروعات تعلیمی اداروں میں داخلے کی غرض سے دی جانے والی عرضی سے ہوتی ہے۔ وقتِ حاضر میں ہر طالب علم اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں نظر آتا ہے اور اسی غرض سے اکثر طلبہ داخلے کے لیے ایک سے زیادہ مضامین میں اپنی درخواست دیتے ہیں اور داخلے کی درخواست کے لیے پراسپیکٹس خریدنا ضروری ہے کیونکہ داخلہ فارم پراسپیکٹس کے اندر ہوتا ہے۔ اب طلبہ اگر ایک سے زیادہ شعبہ جات میں درخواست دینا چاہتے ہیں تو انہیں پراسپیکٹس بھی ایک سے زیادہ خریدنے پڑتے ہیں جس کے لیے ہر تعلیمی ادارہ اپنی مرضی سے قیمت لگاتا ہے۔ ابھی صرف درخواستوں پر یہ لوٹ مار ختم نہیں ہوتی بلکہ یہیں سے تو بھتہ وصولی کی شروعات ہوتی ہے اور غریب طلبہ کو مزید لوٹا جاتا ہے۔ اگلے مرحلے میں میرٹ لسٹوں کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے جس میں صرف گنے چنے طلبہ کو پاس کیا جاتا ہے۔ یوں میرٹ کے ذریعے ایک تو ریاست آبادی کے تناسب سے تعلیمی سہولیات فراہم کرنے میں اپنی نااہلی کو چھپانے میں کامیاب ہوتی ہے، دوسرا جن چند خوش نصیب طلبہ کو داخلہ مل جاتا ہے ان کے باقی شعبہ جات کی درخواست کے لیے لگائے ہوئے پیسے اور باقی ناکام رہنے والے طلبہ سے داخلہ فارم کی آڑ میں وصول کی گئی کروڑوں روپے کی رقم اداروں کے کھاتوں میں کہیں گُم سی جاتی ہے اور وہ بھی ایسے کہ جس کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔

اگر ہم مختلف اعداد و شمار دیکھیں تو اس لوٹ مار کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صرف جنوبی پنجاب کے چند بڑے تعلیمی ادارے جن میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی فی مضمون داخلہ فیس 1000 روپے تھی، غازی یونیورسٹی میں 800 اور دیگر اداروں میں بھی اسی طرح فیسیں لی گئیں۔ اگر ہم داخلوں کے لیے درخواستوں کا اندازہ لگائیں تو گزشتہ برس (چونکہ حالیہ برس کے اعداد و شمار ابھی تک ظاہر نہیں کیے گئے اور داخلوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے) اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں 60,000 کے لگ بھگ طلبہ نے داخلوں کے لیے درخواستیں دیں۔ جس میں ہر طالبِ علم نے فی مضمون 1000 روپے بھرے اور یونیورسٹی کی کُل نشستیں چار ہزار کے لگ بھگ ہی تھیں۔ ایسے ہی ایجوکیشن یونیورسٹی لاہور کے ملتان کیمپس میں درخواستوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ رہی جبکہ جامعہ کی نشستیں چند ہزار بھی نہ تھیں۔ ان درخواستوں کی مد میں وصول کردہ رقم کہاں گئی؟ یقیناً ان یونیورسٹی کے مالکان اور تعلیمی مافیا کی جیبوں میں۔

حالیہ دنوں میں جب تمام ممالک کرونا وبا سے بُری طرح متاثر ہیں اور نظامِ زندگی بُری طرح مفلوج ہے، اب بھی طلبہ کے مستقبل کی فکر کا ڈھونگ رچاتی یہ نجی و سرکاری جامعات درحقیقت غریب طلبہ کا خون نچوڑنے میں مصروفِ عمل ہی۔۔۔ وقتِ حاضر میں ملک کی مختلف نجی و سرکاری جامعات میں داخلے جاری ہیں اور ان کی مد میں بھاری رقوم پر مشتمل فیسوں کی وصولی بھی جاری ہے۔ ملک کی معیشت جو پہلے ہی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور غریب عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ اس وقت پر حکومت اور اداروں کو عوام کی آسانی پر توجہ دیتے ہوئے ان اخراجات کو ختم کرنا چاہیے تھا مگر ان حالات میں نجی و سرکاری جامعات کی فیسوں میں شدید اضافہ دیکھنے میں آیا جس کے باعث عوام کی مشکلات میں کمی کی بجائے اور اضافہ ہو اہے۔ ملک کی تقریباً تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں داخلے کی مد میں وصول کی جانے والی رقم سمیت جامعات کی فیسوں اور دوسرے اخراجات میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا جو 10 فیصد سے 40 فیصد تک رہا ہے اور اس قدر پیسہ کھانے کے باوجود بھی یہ ادارے دیوالیہ ہونے کا رونا رو رہے ہیں۔

اسی صور تِ حال کو تھوڑا اور آگے بڑھائیں تو ڈگری کے مکمل ہونے کے بعد بھی طلبہ کی مشکلات ختم نہیں ہوتیں بلکہ نوکری کے حصول کے لیے در بدر خوار ہونے کی صورت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ ملک میں تعلیمی نظام تو زوال کا شکار ہے ہی، روزگار کا حصول بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور جو چند ایک روزگار کے مواقع میسر ہوں بھی جائیں تو وہاں بھی پہلے تو درخواست گزار سے درخواست فارم کی صورت میں پیسہ وصولی کی جاتی ہے اور پھر اداروں میں انتظامیہ کی ذاتی پسند اور ناپسند کی بِنا پر بھرتیاں کی جاتی ہیں یا دوسری صورت میں پھر درخواست گزار سے بھاری رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ ساری صورتِ حال جہاں نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ ان کے اہل خانہ پر شدید نفسیاتی دباؤ کا باعث بنتی ہے وہیں دوسری طرف پڑھی لکھی نوجوان نسل مجبوراً چھوٹی چھوٹی نوکریوں میں خوار ہوتی یا پھر ساز گار روزگار کی عدم دستیابی پر مختلف جرائم پیشہ کاموں میں ملوث ہو جاتی ہے۔ اس سب کا ذمہ دار حکمران طبقہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے عوام کے نااہل ہونے کا رونا روتا رہتا ہے۔

یہاں پر جو سوال اُبھرتا ہے وہ اس لوٹ مار کے خاتمے کا سوال ہے۔ اس لوٹ مار کے نظام کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ملک بھر میں طلبہ کی تعداد کے تناسب سے تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں اور تمام نجی تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے کر ہر سطح پر تعلیم کو مفت کیا جائے اور طبقاتی نظامِ تعلیم کا خاتمہ کیا جائے اس کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اسی کے ذریعے اس گھٹیا مقابلے بازی اور میرٹ کا خاتمہ ممکن ہے۔ نیز اس مقابلہ بازی کی آڑ میں ہونے والی دو نمبری اور لوٹ مار کا خاتمہ ممکن ہے اور ان سب میں طلبہ یونین کی بحالی بھی ایک لازمی امر ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ مندرجہ بالا اقدامات کرے مگر ہمیں نظر آتا ہے کہ موجودہ نظام کی بنیاد ہی یہی مقابلہ بازی اور لوٹ مار ہے، اس نظام کے اصل اور گھناؤنے چہرے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں بیروزگار افراد کی پوری فوج تیار ہوتی ہے، سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں افراد ایسے پیدا ہو جاتے ہیں جن کے پاس کچھ نہ ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ لازمی طور پر اس نظام کا ہی خاتمہ کیا جائے اور اس کی جگہ ایسا نظام قائم کیا جائے جہاں تعلیم ایک کاروبار نہیں ہو گا، جہاں افراد کو تعلیم روزگار کے حصول کے لیے حاصل نہ کرنی پڑے بلکہ تعلیم انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا ذریعہ ہو گی۔ ایسا نظام جس میں لوٹ مار کی کوئی گنجائش موجود ہی نہ ہو یعنی کہ ایک سوشلسٹ سماج کا قیام جو اس لوٹ مار اور مہنگی تعلیم سمیت ہر قسم کی اذیتوں اور جبر سے نجات کا ضامن ہو گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.