سرمایہ داری کا زوال اور جنسی ہراسانی کے بڑھتے واقعات

|تحریر: علیحہ عارف|

لینن نے کہا تھا، ”سرمایہ داری لامتناہی دہشت ہے۔“ آج سرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دو چار ہے اور اس کی یہ بدترین معاشی شکست سماج کے ہر پہلو میں اپنی دہشت کا اظہار کر رہی ہے۔ سیاست، ریاست، ادب، سائنس، سماج، خاندان، اخلاقیات، غرض کہ تمام تر سماجی ڈھانچہ اس وقت شدید بحران کی لپیٹ میں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ ہولناک صورتِ حال میں ایسا بھی نہیں ہے کہ آج محنت کش طبقہ اور طلبہ اس نظام کی دہشت کو خاموشی سے سہہ رہے ہیں۔ آج ملک بھر میں محنت کش اور طلبہ سڑکوں پر ہیں، حتیٰ کہ عمومی طور پر معاشرے کی پسماندہ ترین سمجھے جانے والی پرت، خواتین بھی سراپا احتجاج نظر آتی ہیں۔ پچھلے عرصے میں بلوچستان جہاں کی خواتین کو پسماندہ سمجھا جا تا تھا، وہاں سے جنسی ہراسگی کے خلاف خواتین کی ایک شاندار مزاحمت سامنے آئی، جس میں طالبات نے بھی اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔

محنت کش خواتین اور طالبات کا کراچی سے لے کر کشمیر تک یوں عوامی تحریکوں میں اُترنا واضح کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ ساتھ خواتین کے استحصال میں دن بدِن اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ خواتین کے ساتھ زیادتی اور جنسی ہراسانی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جس کا روزانہ کی خبروں اور سوشل میڈیا میں واضح اظہار نظر آتا ہے۔

ہراسمنٹ کے بڑھتے واقعات

امریکن ہیریٹیج لُغت کے مطابق ہراسمنٹ کے لفظی معنی کسی بھی فرد کو ”مستقل تنگ یا زِچ کرنا“ ہیں۔ جنسی طور پر ہراساں کرنے میں کسی فرد کو اُس کی مرضی کے بغیر اُسے چھونا، پکڑنا اور جنسی رابطہ قائم کرنا شامل ہے۔ جنسی معنوں پر مبنی تبصرہ، منفی نگاہوں سے گھورنا، ناگوار اور ناشائستہ جنسی اشارے کرنا یا ناگوار جسمانی حرکات کرنا وغیرہ جنسی ہراسانی میں آ جاتا ہے۔

پاکستان میں آئے روز جنسی ہراسانی کے دردناک واقعات ہمیں خبروں میں سننے کو ملتے ہیں۔ اور اکثر اوقات انصاف فراہم کرنے والے ادارے خود ان واقعات میں ملوث پائے جاتے ہیں، چاہے وہ ماضی میں 2002 میں مختاراں بی بی کی انتقام کے طور پر کی جانے والی اجتماعی عصمت دری ہو یا پھر 2017 میں ملتان میں 14 سالہ بچی کے ساتھ اس کے بھائی کے گناہ کی سزا کے طور پر زیادتی کا حکم ہو۔ ایسے اور بھی سینکڑوں واقعات ملتے ہیں جہاں آج بھی دیہی اور قبائلی پنچائیتوں میں کاروکاری، ونی اور اس جیسے انسانیت سوز فیصلے ہوتے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اخباروں کے ذریعے جنسی زیادتی، جنسی ہراسانی، غیرت کے نام پر قتل وغیرہ جیسے سامنے آنے والے واقعات کی تعداد حقیقت میں رونما ہونے والے واقعات کے موازنے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ درحقیقت پاکستان میں رونما ہونے والے ہراسگی اور زیادتی کے غیر درج شدہ واقعات کی تعداد درج شدہ واقعات کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ عورتوں کی اکثریت اپنے ساتھ ہونے والے ایسے واقعات کی رپورٹ درج کروانے سے ہی ڈرتی ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے انہیں اپنے خاندان میں، معاشرے میں یا شادی بیاہ میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تعلیمی اداروں میں دیکھا جائے تو یہاں بھی طلبہ کی جنسی ہراسانی ایک معمول بن چکی ہے، یونیورسٹی پروفیسرز، خاص کر سُپروائزرز طالبات کو ڈرا دھمکا کر انھیں بلیک میل کرتے ہیں۔ عموماً ان واقعات کو اداروں میں ہی دفن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس وجہ سے ان کی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آتی۔ اگر کوئی طالبہ آواز اٹھائے تو اس پر انہی پروفیسرز پر مبنی ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا دی جا تی ہے، جس کے بعد وہ کیس اور ساری تحقیق کہیں فائلوں میں دب جاتی ہے اور اگر کہیں دباؤ ذیادہ ہو تو کسی چھوٹے موٹے چپڑاسی کو فارغ کر کے جان چھڑائی جاتی ہے۔ ان مسائل کی وجہ یونیورسٹیوں میں طلبہ کی حقیقی نمائندگی کا نہ ہونا ہے، یہ باتیں تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی ضرورت کی عکاسی کر رہی ہیں۔ اسی طرح طالبات کو طلباء کی جانب سے بھی ہراساں کیا جاتا ہے، جس میں عموماً انتظامیہ کے پالتو لونڈوں کی جانب سے زیادتی کرنے، واش رومز میں نازیبا فلمیں بنانے، دھمکیاں دینے سے لے کر طالبات پر جملے کسنا اور گھورنا وغیرہ شامل ہے۔ یہ سب کچھ جہاں ایک طرف تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی ضرورت کی عکاسی کرتا ہے وہیں سرمایہ دارانہ زوال کے باعث اخلاقیات کی زوال پذیری کا بھی اظہار کرتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہو تا ہے عورت کے ساتھ ہو نی والے دہرے استحصال اور جنسی ہراسانی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ ہمارے ہاں فیمنسٹ حضرات خواتین کے اس مسئلہ کو بھی محض صنفی مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہراسمنٹ کا سوال طاقتور ہونے سے جڑا ہوا ہے، یعنی ہمارے معاشرے میں مرد کو طاقتور ہونے کی حیثیت حاصل ہے اور صرف مرد ہی ہے جو عورت پر تمام تر جبر و استحصال ڈھاتا ہے۔ لیکن آج کرہ ارض پر معاشرے میں خواتین کی اکثریت کے عمومی حالات، ان کی کم تر حیثیت، معاشی استحصال اور صنفی جبر کی جو انتہائیں ہمیں نظر آتی ہیں یہ ہمیشہ سے وجود نہیں رکھتی تھیں۔ طبقاتی تفریق ہی وہ نقطہ ہے جس نے عورت کو سماجی پیداوار سے الگ کر کے اسے انسان کے درجے سے کم تر کیا، اور اسے بس بچے پیدا کر کے مرد کی نجی ملکیت کی منتقلی کو یقینی بنانے والی ”شے“ بنا دیا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ عورت کی حقیقی آزادی اس پر ہو نے والے جبر کی اصلی بنیادیں، نجی ملکیت اور طبقاتی نظام کے خاتمے سے جڑی ہے۔ اس لئے عورت پر ہو نے والے جبر و استحصال کا خاتمہ محض انسانی رویے اور الفاظ کو بدلنے سے یا نئے الفاظ متعارف کروانے سے نہیں، بلکہ طبقاتی جبر و استحصال اور نجی ملکیت کے زہر سے پاک سوشلسٹ بنیادوں پر استوار ایک نیا سماجی ڈھانچہ تعمیر کرنے سے ہی ممکن ہے۔ جس کے لئے طلبہ، محنت کش خواتین اور مردوں کو مل کر اس نظام کے خلاف طبقاتی جدوجہد میں شامل ہونا ہو گا۔ عورت کی حقیقی آزادی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.