فلم ریویو: سنوپیئرسر؛ طبقاتی کشمکش اور انقلاب، ایک ریل گاڑی پر

|سٹیو جونز، 3 ستمبر 2020 |
|مترجم: عرشہ صنوبر|

 

نیٹ فلِکس نے حال ہی میں ’بونگ جون ہو‘ کی ’ڈائیس ٹوپیئن‘ ایکشن تھرلر ’سنوپیئرسر‘ ہی کے نام سے ٹی وی کے لیے نئے سرے سے فلم تیار کر کے پیش کی، جو طبقاتی معاشرے کی جدوجہد کے بارے میں ایک شاندار نظریہ پیش کرتی ہے۔ سٹیو جونز کا ماخذ اصل فلم ہے۔ کورین ہدایت کار ’بونگ جون ہو‘ کی 2019 میں آنے والی فلم ’پیراسائیٹ‘، جو جدید دور کی سرمایہ داری پر ایک کاٹ دار طنز ہے، نے اس سال آسکر کی بہترین فلم سمیت ایوارڈز کے ڈھیر کے ساتھ ساتھ اہم اور تجارتی نکتہ نظر سے بھی داد و تحسین پائی۔ تاہم، چھ سال پہلے بونگ نے ’سنوپیئرسر‘ کے نام سے زیادہ واضح انداز میں ایک سرمایہ داری مخالف فلم بنائی، جو نیٹ فلِکس کے ٹی وی کے ری میک کی وجہ سے اب نئے ناظرین حاصل کر رہی ہے۔ ’سنوپیئرسر‘ 40 ملین امریکی ڈالر کے بجٹ کے ساتھ، جنوبی کوریا کی اب تک کی سب سے مہنگی فلموں میں سے ایک رہی ہے۔ اس میں کورین اور امریکہ/برطانیہ کے اعلی اداکاروں کا ایک شاندار سنگم شامل ہے، جس میں سونگ کانگ ہو اور کو آسنگ ایڈ ہیریس، ٹلڈا سوئٹن اور مرحوم جان ہارٹ کے ساتھ شامل ہوئے۔ اس کاسٹ کی سربراہی خود ’کیپٹن امریکہ‘ کرِس ایوانز نے کی ہے۔

اسلحے سے لیس مُردے
یہ فلم سائنس فکشن ڈرامہ ہے، جو 1982 میں ’لی ٹرانسپرسینیج‘ نامی گرافک ناول پر مبنی ہے۔ یہ مستقبل قریب کے بارے میں بنائی گئی ہے جہاں فضا کی تباہی کے بعد، دنیا ایک نئے برفانی دور میں داخل ہو گئی ہے۔ زندہ بچ جانے والے افراد ایک بڑے پیمانے پر ٹرین پر پھنس گئے ہیں، جو برف پوش سیارے کے گرد گردش میں ہے۔ یہاں بنیادی مسئلہ واضح طور پر ہے تو مضحکہ خیز، لیکن یہ ایک مقصد کے تابع ہے، جیسا کہ ہم آگے دیکھیں گے۔

سال 2031 تک، ٹرین طبقات کی لکیروں میں منقسم ہو چکی ہے، مٹھی بھر پیسے والے افراد اس کے اگلے حصے میں قیادت کو سنبھالے بیٹھے ہیں، جبکہ غریب عوام اس ٹرین کے پچھلے حصوں میں خوفناک طرزِ زندگی میں جی رہے ہیں، جن کو ٹرین کے مسلح محافظوں کی جانب سے مسلسل ہراسانی کا سامنا رہتا ہے۔ ہر کوئی ٹرین کے مالک وِلفورڈ (ہیریس) کے بارے میں بات کرتا ہے، لیکن اس کو کبھی بھی کسی نے نہیں دیکھا۔۔ یہاں جان بوجھ کر ’ویزرڈ آف اوز‘ (ہالی ووڈ کی بہترین مانی جانے والی فلم) کے مناظر کی جھلک دکھائی گئی ہے۔۔ تاہم، ہر شخص اس بدمزاج اور بے رحم معتمدِ خاص وزیر میسن کو جانتا ہے، جس کا کردار سویٹنؔ نے انتہائی خوبصورتی سے نبھایا ہے۔

انقلابی کرِٹس (ایوانز) کی قیادت میں، میسن کو پکڑنے اور ایک انقلابی تبدیلی لانے کے لئے بغاوت منظم کیے تیار بیٹھے تھے۔ جیسے ہی ان کو یہ علم ہوتا ہے کہ مسلح انسانوں کے یہ بے جان مُردے کسی بھی تحریک سے نمٹنے کے لیے گولے بارود سے فارغ ہیں، لڑائی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ جلد ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سرمایہ داروں نے جھوٹ کا سہارا لے کر ٹرین پر قبضہ کیا ہے۔ لیکن یہ بھی کہ ان کا کوئی خوفناک خفیہ منصوبہ ہو سکتا ہے، اور وہ اس بغاوت کو عملی جامہ پہنانے کے لئے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ فلم سائنس فکشن ایکشن فلم ہے جس میں مسلسل لڑائی ہے، کہانی میں ٹوئسٹ اور دھوکا فریب جاری رہتے ہیں، جو ایسی فلموں کے شائقین کے لیے جانے پہچانے ہیں، اور اس میں حکمران طبقے پر نہایت باریکی سے ڈھکے چھپے انداز میں سیاسی حملہ کیا گیا ہے۔

دلوں کے تار چھیڑ دینے والی


فلم کی دو بالکل مختلف اقسام ایکشن-تھرلر اور فنکارانہ سماجی تبصرے کو ساتھ میں لے کر چلنے کی کوشش سے شاید اس فلم کو ابتدائی ریلیز پر مدد نہیں ملی، حالانکہ اس نے کوریا اور چین میں کافی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔امریکہ میں، اس کی ڈسٹری بیوٹر ’دی وائن اسٹائن کمپنی‘ نے فلم کے چلنے کا دورانیہ 20 منٹ تک کم کر دیا (لمبی غیر ملکی فلموں کے معاملے میں امریکی تقسیم کاروں کا یہ معمول ہے)، اور پھر اس نئے ورژن کو صرف آٹھ تھیٹرز میں ہی پیش کیا گیا۔ بونگ جون ہو نے خوب دلیری کے ساتھ اس کے خلاف مقابلہ کیا، اور آخر میں یہ اپنے مکمل 126 منٹ کے محدود پیمانے پر چلائی گئی، اگرچہ اس کے ڈسٹری بیوٹر اب تبدیل کر دیے گئے تھے۔

اگرچہ ’سنوپیئرسر‘ تیزی سے ڈی وی ڈی اور آن لائن اسٹریمنگ پلیٹ فارم پر گئی، لیکن (دیگر تمام نظریات فلموں کی طرح) اس نے چلتے چلتے ہم خیالوں کو اُچک لیا۔ لازمی طور پر اس کے سیاسی موضوعات نے خاصی توجہ کھینچی ہے، یہاں تک کہ ایسے لوگوں نے بھی اسے دیکھا جو کہ عام طور پر ایسی فلمیں نہیں دیکھتے۔ فلم ’پیراسائٹ‘ کی کامیابی نے اس میں مزید اضافہ کیا ہے۔ نیٹ فلِکس نے اب ٹی وی کے لیے خصوصی طور پر بنائی گئی سیریز دکھانا شروع کر دی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس پر طبقاتی جنگ، انقلاب اور مزاحمت کے موضوعات چھا چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ ایک سال کے دوران پوری دنیا میں جاری بحرانوں اور بڑے پیمانے پر عوامی جدوجہدوں کے پیشِ نظر موجودہ وقت میں ان موضوعات کو دیکھنے والوں کے دلوں کے تار ضرور چھیڑیں گے۔
جو لوگ اس وقت یہ سیریز دیکھ رہے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ پیچھے جا کر 2013 کی اصل فلم کو دیکھیں۔ اگرچہ طریقہ کار کو خلط ملط کرنا ہمیشہ کام نہیں کرتا لیکن، ’سنوپیئرسر‘ ایک غیرمعمولی ذہانت کے ساتھ بنی ہوئی ایک اعلیٰ درجے کی فلم ہے اور اس بات کا حق رکھتی ہے کہ اس کو دوبارہ بنایا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.